سوویت یونین کی فوج افغانستان میں کیوں آئی؟ کیا یہ واقعی ’’حملہ‘‘ تھا یا افغان حکومت کی دعوت پر مداخلت؟
ماسکو (صداۓ روس)
افغانستان میں 1979 میں سوویت فوج کی آمد کو مغربی بیانیے میں عموماً ایک براہِ راست حملہ قرار دیا جاتا ہے، مگر تاریخی حقائق اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مختلف ہیں۔ یہ وہ رخِ تاریخ ہے جسے عام طور پر پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ 1978 میں افغانستان میں ثوری انقلاب برپا ہوا، جس کے نتیجے میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (پی ڈی پی اے) اقتدار میں آئی۔ یہ جماعت دو بڑے دھڑوں، خلق اور پرچم، پر مشتمل تھی اور نظریاتی طور پر کمیونزم اور سوویت یونین سے گہرا تعلق رکھتی تھی۔ اقتدار سنبھالتے ہی نئی حکومت نے تیز رفتار اور سخت اصلاحات کا آغاز کیا جن میں زمینوں کی جبری تقسیم، قبائلی و مذہبی ڈھانچے میں مداخلت، اور روایتی سماجی نظام کو بدلنے کی کوشش شامل تھی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف مذہبی حلقوں بلکہ قبائلی سرداروں اور شہری اشرافیہ میں بھی شدید ردِعمل پیدا ہوا۔ اسی مرحلے پر مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکہ، نے افغانستان میں عدم استحکام کو ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ افغان قبائلی علاقوں میں مزاحمت کو منظم کیا گیا، علما اور سرداروں کو حکومت کے خلاف ابھارا گیا، اور رفتہ رفتہ ایک مسلح بغاوت نے جنم لیا۔
اس صورتحال میں افغانستان کے اُس وقت کے صدر نور محمد ترکئی اور بعد ازاں حفیظ اللہ امین نے بارہا سوویت یونین سے فوجی مدد کی درخواست کی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سوویت فوج کی آمد کسی اچانک یا یکطرفہ فیصلے کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ افغان حکومت کی مسلسل اپیلوں کے بعد ہوئی۔ ابتدا میں سوویت یونین نے صرف فوجی مشیروں اور محدود مدد پر اکتفا کیا، مگر جب حکومت کا کنٹرول تیزی سے کمزور ہونے لگا اور دارالحکومت کابل بھی خطرے میں نظر آنے لگا تو ماسکو نے فیصلہ کن قدم اٹھایا۔ دسمبر 1979 میں سوویت فوج افغان حکومت کی باضابطہ دعوت پر افغانستان میں داخل ہوئی۔ کئی مقامات پر سوویت فوجیوں کا استقبال بھی کیا گیا، حتیٰ کہ بعض علاقوں میں انہیں پھول پیش کیے گئے، جو اس بات کی علامت تھا کہ اُس وقت تمام افغان عوام انہیں قابض فوج کے طور پر نہیں دیکھ رہے تھے۔ تاہم اسی مداخلت کے دوران ایک اہم اور متنازع موڑ آیا۔ سوویت قیادت کو حفیظ اللہ امین پر اعتماد نہیں رہا تھا، انہیں مغرب کے قریب اور غیر متوقع سمجھا جا رہا تھا۔ کابل پہنچنے کے فوراً بعد حفیظ اللہ امین کو ہٹا کر قتل کر دیا گیا اور ببرک کارمل کو اقتدار میں لایا گیا، جو ماسکو کا قابلِ اعتماد اتحادی سمجھا جاتا تھا۔
یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے سوویت مداخلت کا کردار بدلتا ہے۔ اگرچہ ابتدا افغان حکومت کی دعوت پر تھی، مگر بعد کے اقدامات نے اس مداخلت کو ایک طویل اور خونریز جنگ میں تبدیل کر دیا، جسے مغرب نے مکمل طور پر ’’سوویت جارحیت‘‘ کے طور پر پیش کیا اور اسی بنیاد پر مجاہدین کی بھرپور سرپرستی کی گئی۔ نتیجتاً افغانستان سرد جنگ کا سب سے خونی میدان بن گیا۔ ایک طرف سوویت یونین، دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی، اور درمیان میں افغان عوام، جو دہائیوں تک جنگ، تباہی اور عدم استحکام کا شکار رہے۔ یہ کہنا تاریخی طور پر درست ہے کہ 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر اچانک یا بلاجواز حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ یہ مداخلت افغان حکومت کی دعوت، داخلی بحران، اور عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا نتیجہ تھی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس فیصلے کے اثرات افغانستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے، جن کے زخم آج تک مندمل نہیں ہو سکے۔ یہ تاریخ کا وہ پہلو ہے جو شاذ و نادر ہی مکمل سیاق و سباق کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔