اسلام آباد (SR)
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی وفد کے ہمراہ میڈرڈ میں اسپین کے پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے. اسپین کی نائبین کی کانگریس کی صدر “میری شل بتیت” نے وزیر خارجہ اور ان کے وفد کا خیر مقدم کیا. وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اسپین کے نائبین کی کانگریس کی صدر، میری شل بتیت (Meritxell Batet) سے ملاقات کی.
اس ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا کیا گیا. اسپین کے نائبین کی کانگریس کی صدر، میری شل بتیت نے اسپین آمد پر وزیر خارجہ کو خوش آمدید کہا. مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسپین یورپی یونین میں پاکستان کا انتہائی اہم شراکت دار ہے. پاکستان اسپین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے پر عزم ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپانوی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ ء پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو وسعت ملی. وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان اور سپین کے درمیان، دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد میں پاکستان اور اسپین کے درمیان سفارتی تعلقات کے ستر سالہ جشن کو بھرپور انداز میں منایا. فریقین نے دونوں ممالک کی پارلیمان کے درمیان تعاون کے فروغ کیلئے، دونوں ممالک کے مابین، پارلیمانی فرینڈشپ گروپس کو فعال بنانے پر اتفاق کیا.
کرونا وبائی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے محدود معاشی وسائل کے باوجود، وزیر اعظم عمران خان کے وژن کی روشنی میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کرونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے. وزیر اعظم عمران خان نے کمزور معیشتوں کو کرونا وبا کے معاشی و اقتصادی مضمرات سے بچانے کیلئے “قرضوں کے حوالے سے سہولت کی فراہمی” کی تجویز دی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا.
پاکستانی سفارت کار کا کہنا تھا کہ کرونا جیسے عالمی وبائی چیلنج سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے، ہمیں عالمی سطح پر مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے. پاکستان نے قریب ترین ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے افغانستان میں عدم استحکام کی بھاری قیمت چکائی ہے. شاہ محمود قریشی دہشت گردی کے باعث، پاکستان کو 80 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ اور 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا. انہوں نے بتایا کہ پاکستان، شروع سے اسی موقف کو اجاگر کرتا آ رہا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے.
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو معاشی انہدام سے بچانے کیلئے سنجیدہ کاوشیں نہ کی گئیں تو مہاجرین کی نئ یلغار سمیت شدید مضمرات سامنے آ سکتے ہیں، افغانستان میں عدم استحکام، نہ صرف خطے بلکہ سب کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے. افغانستان میں 40 سال کی بدامنی کے بعد قیام امن کا ایک موقع میسر آ رہا ہے جسے ضائع کرنے کی غلطی نہیں دہرانی چاہیے.
انہوں نے مزید کہا کہ برسلز میں میری یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل سے ملاقات ہوئی اور افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا. افغانستان میں ہنگامی انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 19 دسمبر 2022 کو پاکستان کی میزبانی میں OIC وزرائے خارجہ کونسل کا 17واں غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا.
وزیر خارجہ نے یورپی یونین سمیت، بین الاقوامی برادری کی جانب سے افغان عوام کی معاشی معاونت کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا. ہم نے افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں، مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کیلئے، افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کا پلیٹ فارم تشکیل دیا.
وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی طرف سے افغانوں کی انسانی معاونت بالخصوص اسپین کی جانب سے 20 ملین یورو کے عطیہ کو سراہا۔ ہسپانوی حکومت کی جانب سے افغانستان میں بچوں بالخصوص افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے کاوشوں کا عندیہ، انتہائی قابل ستائش ہے۔ نائبین کی کانگریس کی صدر، میری شل بتیت نے افغانستان سے ہسپانوی شہریوں کے محفوظ انخلاء میں پاکستان کی جانب سے بھرپور مدد کی فراہمی پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا.