کولمبو(انٹرنیشنل ڈیسک)
سری لنکا میں پلاسٹک کھانے سے 20 ہاتھیوں کی موت ہوگئی ہے. اطلاعات کے مطابق مشرقی سری لنکا میں ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں اور جانوروں کے ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ کھلے عام پھینکا گیا پلاسٹک کھانے سے علاقے کے ہاتھی مر رہے ہیں۔
ان کا کی جانب سے ایسا اختتام ہفتہ پر مزید دو ہاتھی مردہ پائے جانے کے بعد کہا گیا۔دارالحکومت کولمبو سے تقریباً 210 کلومیٹر (130 میل) مشرق میں امپارا ضلع کے پلاکدو گاؤں میں پھینکا گیا استعمال شدہ پلاسٹک کھانے سے آٹھ سالوں کے دوران تقریباً 20 ہاتھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگلی حیات کے ماہر نہال پشپ کمارا نے بتایا کہ مردہ جانوروں کے معائنے سے پتہ چلا کہ انہوں نے بڑی مقدار میں تلف نہ ہونے والا پلاسٹک نگل لیا تھا، جو کچرے کے ڈھیر میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پولی تھین، فوڈ ریپرز، پلاسٹک، ہضم نہ ہونے والی دیگر اشیا اور پانی ہی وہ چیزیں تھیں جو ہم پوسٹ مارٹم میں دیکھ سکتے تھے۔
ہاتھی جو عام کھانا کھاتے اور ہضم کرتے ہیں اس کا معلوم نہیں ہوسکا۔‘ سری لنکا میں ہاتھیوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن وہ خطرے میں بھی ہیں۔ ملک میں ہاتھیوں کی پہلی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد 19ویں صدی میں تقریباً 14 ہزار سے کم ہو کر 2011 میں چھ رہ گئی۔ وہ اپنے قدرتی مسکن کے نقصان اور کمی کی وجہ سے تیزی سے غیر محفوظ ہو رہے ہیں۔
بہت سے خطرات مول لیتے ہوئے خوراک کی تلاش میں انسانی بستیوں کے قریب جاتے ہیں اور کچھ شکاریوں یا کسانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے ہیں، جن کو اپنی فصلوں کے خراب ہونے کا غصہ ہوتا ہے۔ پشپ کمارا نے کہا کہ بھوکے ہاتھی زمین پر فضلہ تلاش کرتے ہیں اور پلاسٹک کے ساتھ ساتھ نوکیلی اشیا بھی کھا جاتے ہیں جو ان کے نظام انہضام کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اس کے بعد ہاتھی کھانا چھوڑ دیتے ہیں اور اتنے کمزور ہو جاتے ہیں کہ ان کے بھاری جسم سیدھے نہیں رہ سکتے۔ ’جب ایسا ہوتا ہے تو وہ خوراک یا پانی کا استعمال نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے جلد ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘
اشز2017 میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہاتھیوں کو پلاسٹک کھانے سے روکنے کے لیے جنگلی حیات کے علاقوں کے قریب کوڑے کے ڈھیروں سے کچرے کو ری سائیکل کرے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانوروں کو دور رکھنے کے لیے مقامات کے ارد گرد بجلی کی باڑ لگائی جائے گی لیکن دونوں میں سے کسی پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں جنگلی حیات کے علاقوں میں کوڑے کے 54 ڈھیر ہیں جن کے قریب تین سو کے قریب ہاتھی گھومتے ہیں۔
پلاکاڈو گاؤں میں کچرا پھینکنے کے لیے 2008 میں یورپی یونین کی امداد سے جگہ کا انتظام کیا گیا تھا، قریبی نو دیہات سے جمع کیا گیا کچرا وہاں پھینکا جارہا ہے لیکن اسے ری سائیکل نہیں کیا جا رہا۔ 2014 میں اس جگہ کی حفاظت کرنے والی بجلی کی باڑ پر آسمانی بجلی گری تھی اور حکام نے کبھی اس کی مرمت نہیں کی جہاں سے ہاتھی اندر داخل ہو کر کچرے سے خوراک تلاش کرتے ہیں۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ہاتھی قریب آ گئے ہیں اور کچرے کے گڑھے کے قریب آباد ہو گئے ہیں جس سے قریبی دیہاتیوں میں خوف پھیل گیا ہے۔