شاہ نواز سیال
اکسیویں صدی کے دوسرے عشرے میں عالمی منظر نامہ یکسر بدل گیا ہے علاقائی تبدیلیوں نے ماسکو اور اسلام آباد کے بیچ دو طرفہ تعلقات استوار کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ روس اپنا اثرورسوخ یوریشیا تک بڑھانے میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس پاکستانی کردار کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ مزید برآں روس بحیرہ عرب تک رسائی چاہتا ہے جو کہ سی-پیک فراہم کر سکتا ہے۔ بھارت کا امریکہ کے ساتھ حالیہ برسوں میں فوجی تعلقات کو وسعت دینا پاکستان کو روس کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا ہےامریکہ کے علاوہ ایک اور عالمی طاقت کے ساتھ استوار ہوتے تعلقات نے عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے –
ماضی میں مختلف ترجیحات اور جغرافیائی حقائق نے پاک-روس تعلقات کو نہ پنپنے دیا ۔ تاہم بدلتے علاقائی حالات نے دونوں کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا موقع فراہم کیا ہے۔ گذشتہ سالوں میں روس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینی شروع کر دی ہے۔ سکیورٹی سے متعلق روس، چین، پاکستان کے ملتے جلتے مفادات نے روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے- تینوں ملکوں نے گزشتہ برسوں میں افغانستان سے متعلق اجلاس میں بھارت کو شامل نہ کیا جس پر بھارت نے ماسکو کو اپنے اعتراضات سے فوری آگاہ کیا۔ بھارت روس کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے۔
ماسکو دہشت گردی کو افغانستان میں قابو کرنے کےلئے طالبان کو ضروری سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے وہاں پر امن لانے میں پاکستان کے کردار کو بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ بھارت- امریکہ دفاعی تعلقات اور بھارت-روس تعلقات میں سرد مہری نے پاکستان اور روس کےلئے تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ روس نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں تاہم یہ مشقیں اس وقت ہوئیں جب پاکستان اور بھارت کے بیچ اڑی حملے کےبعد فوجی تناؤ چل رہا تھا۔ روس نے پاکستان کو چار ہیلی کاپٹرز بھی فراہم کیے ۔ یہ چیزیں دکھاتی ہیں کہ روس جہاں تاریخی طور پر بھارت سے دور ہو رہا ہے وہیں وہ پاکستان کے قریب ہو رہا ہے۔
سی-پیک کی صورت میں پاکستان کو جو معاشی فوائد اور مواقع ملے ہیں، پاکستان ان میں روس کو شامل کر کے تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے۔ سی-پیک علاقائی اور عالمی معاشی سرگرمیوں کی وسعت میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ سی-پیک “لینڈ لاکڈ” ملکوں کو بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی بھی دے گا جس کی روس نے ایک عرصے سے خواہش رکھی ہے۔ کچھ خبریں بتاتی ہیں کہ ماسکو اور اسلام آباد سی-پیک اوریوریشین اکنامک یونین کو ملانے سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں۔
گرم پانیوں تک رسائی کے علاوہ روس پاکستان کو ہتھیار بھی فروخت کر سکتا ہے۔ پابندیوں میں جکڑا ہوا اور دفاعی منڈی میں ہتھیاروں کی فروخت میں سخت مقابلے کی وجہ سے روس نئی منڈیاں تلاش کر رہا ہے۔ افغانستان میں دیرپا استحکام لانے میں روس کو پاکستان کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کی داخلی سکیورٹی کا ضامن ہے۔
پاکستان میں یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ قومی مفادات کےلئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاک-روس تعلقات میں دو طرفہ گرمجوشی اس تبدیلی کی بڑی مثال ہے۔ پاکستان کےلئے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کا عالمی سیاست اور امریکہ کو ایک واضح پیغام ہو گا کہ ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ سکیورٹی، توانائی اور معاشی تعلقات میں بہتری یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے بیچ سرد جنگ کی سرد مہری ختم ہو گئی ہے۔ علاقائی امن اور خوشحالی کو وسعت دینے کےلئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں لگاتار تبدیلی لانی چاہئے جو کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ مثبت تعلقات بنانے سے قائم ہو گی۔