ہومپاکستانپاکستان میں پائے جانے والے زہریلے سانپ

پاکستان میں پائے جانے والے زہریلے سانپ

تحریر و تحقیق :- عمران سرگانی
پاکستان میں سانپوں کی ستانوے اقسام پائی جاتی ہیں جن میں صرف آٹھ اقسام زہریلی ہیں۔ ہم سب سے پہلے زہریلی اقسام پر بات کریں گے جن میں چار سانپ کاٹنے اور جان لینے کی لحاظ سے زیادہ مشہور ہیں جن میں سنگچوڑ ، رسل وائپر ، سا سکیلڈ وائپر اور کوبرا کے نام آتے ہیں۔ ان کے علاوہ زہریلی اقسام یا تو پاکستان میں نایاب ہیں یا ان کے مسکن انسانی آبادیوں سے دور ہیں۔ غیر زہریلے سانپوں کی تعداد تو گننے سے بھی زیادہ ہے اور ایک شہر یا علاقے میں ایک آدھ قسم کا سانپ ہی زہریلا ہوتا ہے باقی تمام اقسام غیر زہریلی ہوتی ہیں۔ جیسے سنگچوڑ سرسبز اور نمی والے علاقوں میں ، رسل وائپر اور سا سکیلڈ وائپر خشک اور پتھریلے علاقوں میں جن کے قریب پانی موجود ہو جبکہ کوبرا پہاڑی اور میدانی جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔
اگر آپ کو آبادی کے آس پاس کوئی بھی سانپ نظر آئے اسے مارنے کی بجائے ریسکیو 1122 پر کال کریں وہ اسے پکڑ کر جنگل میں چھوڑ دیں گے۔ یہ کام آپ خود بھی کر سکتے ہیں ایک لمبا تھیلا سی لیں جس کے منہ پر تتلیاں پکڑنے والا کیچر یا پائپ لگا دیں تاکہ اس کا منہ کھلا رہے۔ سانپ کے آگے کریں گے تو وہ اسے بل سمجھ کر اندر گھس آئے گا اور پھر تھیلے کا منہ بند کر کے جنگل میں چھوڑ دیں ، کسی بھی سانپ کو چاہے زہریلا ہو یا غیر زہریلا بنا تربیت اور حفاظتی گیجٹ کے ہاتھ سے نہ پکڑیں۔
سانپ اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا ہمارے ذہنوں میں اس کا خوف پایا جاتا ہے ، اکثر لوگ سانپ کے زہر سے زیادہ اس کے خوف سے مر جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اگر غیر زہریلا سانپ بھی کاٹ لے تو لوگ بی پی ہائی ہونے اور ہرٹ اٹیک ہونے سے مر جاتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو سانپ کاٹ لے تو اسے حوصلہ دلائیں اس کا بی پی نارمل کرنے کی کوشش کریں ، زہر کو پھیلنے سے بچانے کے لیے زخم سے تھوڑا دور کس کر رسی یا کپڑا باندھ دیں اور زخم کو مزید کھرچ لیں تاکہ خون کے ساتھ زہر باہر نکل آئے۔ زہریلے سانپ اور غیر زہریلے سانپ کے کاٹنے سے ہونے والے زخم میں فرق ہوتا ہے۔ زہریلے سانپ کے اوپری جبڑے میں دو فینگز یعنی زہر کے دانت ہوتے ہیں جسے وہ جسم میں گھسا دیتا ہے اور زہر انجکشن کی طرح جسم میں چلا جاتا ہے اور یہ سانپ کی مرضی ہے وہ کاٹتے وقت زہر انجیکٹ کرے یا نہ کرے ، چھوٹے ( بچے ) زہریلے سانپوں میں زہر کم ہوتا ہے مگر وہ زہر کو قابو نہیں کر سکتے اور سارا زہر ڈال دیتے ہیں اس لیے وہ جوان اور بڑے زہریلے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ غیر زہریلے سانپوں کے منہ میں زہر والے دانتوں کی بجائے چھوٹے دانت ہوتے ہیں جو کاٹتے وقت انسان کے جسم میں ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے زخم زہریلے سانپوں سے مختلف ہوتا ہے۔
کامن کریٹ یا سنگچوڑ
یہ سانپ پاکستان کے سر سبز علاقہ جات میں بکثرت پایا جاتا ہے اور نمی والی جگہ پر رہنا پسند کرتا ہے۔ عموماً نر مادہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہ سانپ سیاہ یا گہرا سیاہی مائل بھوری رنگت کا ہوتا ہے اور گردن سے ایک انچ چھوڑ کر سفید دھاریاں وقفے وقفے سے دم تک چلی جاتی ہیں ، اس کی لمبائی تین سے پانچ فٹ تک ہوتی ہے۔ سندھی سنگچوڑ میں سفید دھاریاں تھوڑی مدھم معلوم ہوتی ہیں۔
یہ کوبرہ سانپ سے پانچ گنا زیادہ زہریلا ہے۔ یہ سانپ اکثر رات کے وقت دوسرے سانپوں کا شکار کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں اور حرارت کے شیدائی ہوتے ہیں۔ انسانی حرارت لینے کے لیے یہ اکثر چارپائی پر کود کر بستر میں کھس آتے ہیں اگر ان انسان کا دباؤ نہ پڑے تو کچھ دیر بعد بستر سے نکل جاتے ہیں مگر دباؤ پڑنے یا ہاتھ پاؤں لگنے پر انسان کو کاٹ لیتے ہیں اور انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا جیسے کسی مچھر یا چیونٹی سے کاٹا ہو اور انسان چار سے چھ گھنٹے کی نیند ہی میں اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ اس سانپ کے کاٹنے سے آدھے گھنٹے میں نیند آنے لگتی ہے اور جوڑوں میں درد ، پیٹ میں درد اور فالج جیسی کیفیت ہو جاتی ہے کیونکہ سانپ کا زہر جسے نیورو ٹاکسن کہتے ہیں اعصاب پر اثر کرتا ہے۔ اس کے کاٹنے کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے اسے خاموش قاتل کہنا غلط نہیں کیونکہ اس کے کاٹنے سے نہ جلن ہوتا ہے اور نہ خون نکلتا ہے۔ یہ سانپ چار بڑے زہریلے سانپوں میں زیادہ کاٹنے کی وجہ سے پہلے نمبر پر آتا ہے۔ اس کی زہر کا ایک بوند سو لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔
ایسے سانپ کو انتہائی مجبوری کی حالت میں مار سکتے ہیں جب اسے ریسکیو کرنے کا کوئی راستہ موجود نہ ہو۔
رسل وائپر یا کوڈیوں والا سانپ
یہ سانپ سنگچوڑ کے برعکس دریا کے قریب خشک یا پتھریلے علاقے میں رہنا پسند کرتا ہے ، وائپر کی کچھ دوسری قسمیں پہاڑوں پر بھی رہتی ہیں۔ رسل وائپر کی جلد سخت ہوتی ہے اور اس کے جسم پر زنجیر جیسی تین لائنیں ہوتی ہے درمیان والی لائن میں پیٹرنز قریب قریب جبکہ سائیڈ والی دونوں لائنوں میں پیٹرنز دور دور ہوتے ہیں اور یہ پیٹرنز کناروں سے زنجیر کی طرح گہری رنگت کے ہوتے ہیں۔ اس کا سر گردن سے بڑا اور چپٹا ہوتا ہے اور اپنی تکونی ناک کی وجہ سے دوسرے سانپوں سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ یہ تقریباً آٹھ فٹ تک بڑا ہو سکتا ہے۔
یہ سانپ انتہائی زہریلا اور غصیلہ ہوتا ہے اور ذرا سا پاؤں کا دباؤ پڑنے پر جھٹ سے حملہ کرتا ہے اور انسان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملتا ، یہ سانپ غصے میں ناک سے پھنکارتا ہے اور اپنے قریب آنے سے انسان کو خبردار کرتا ہے۔ اس کا جسم زیادہ لمبا نہیں ہوتا جتنا موٹا ہوتا ہے۔ اس کا جسم انگریزی حرف ایس یا ہندسے آٹھ جیسی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اپنی گردن کو آگے کی طرف جھٹکا دے کر اچانک ڈس لیتا ہے۔
اس سانپ میں ہیومو ٹاکسن نامی زہر پایا جاتا ہے ، کاٹنے کی صورت میں صرف بیس فیصد امکان ہے کہ سانپ نے کاٹنے کے باوجود زہر داخل نہ کیا ہو۔ تمام وائپر سانپوں کے فینگز یعنی زہر والے دانت دوسرے تمام زہریلے سانپوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ اس کا زہر آہستہ آہستہ جسم میں سرایت کرتا ہے اور بہت زیادہ جلن اور درد ہوتا ہے اور گوشت پھٹنا شروع ہو جاتا ہے بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے انسان دو سے بارہ گھنٹے میں موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اس کا زہر انسان کے گردوں پر بھی اثر کر سکتا ہے گردے فیل ہونے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اینٹی وینم استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ڈایا لائسز بھی کروانا پڑتا ہے ورنہ اینٹی وینم لینے کے باوجود کچھ دنوں میں موت واقع ہو سکتی ہے۔
یہ سانپ انسان کو کاٹنے اور اس کی جان لینے کی وجہ سے سنگچوڑ یعنی کامن کریٹ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ یہ سانپ نظر آنے پر اس کے قریب نہ جائیں ، اگر سانپ آبادی کے قریب ہو تو ریسکیو ٹیم کو بلائیں جو اسے پکڑ کر جنگل میں چھوڑ دے۔
سا سکیلڈ وائپر یا کھپرا
یہ سانپ پاکستان میں پائے جانے والے زہریلے سانپوں میں سے سب سے چھوٹا سانپ ہے اس کی لمبائی ایک ، ڈیڑھ فٹ سے دو یا اڑھائی فٹ ہو ہوتی ہے یہ بھی رسل وائپر کی طرح بھاری بھر کم ہوتا ہے اور سائز میں اس سے چھوٹا ہوتا ہے ، اس کی رنگت سرخی مائل یا کلیجی سیاہی مائل ہوتی ہے جس پر آری کی دندانوں جیسی سفید لکیریں ہوتی ہیں اور سر پر جمع یا پرندے کے پنجے جیسا سفید نشان ہوتا ہے۔ اس میں رسل وائپر کی طرح ہیومو ٹاکسن زہر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد اس کے زہر کے اثرات بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ سانپ کاٹنے کے حساب سے تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
ہارنڈ وائپر یا سینگوں والا سانپ
وائپر سانپ کی یہ قسم بلوچستان میں پائی جاتی ہے جو دوسرے وائپرز کی طرح ہی زہریلے ہے۔ بلوچستان میں چونکہ آباد کاری کی شرح کم ہے اس لیے اس سانپ کا انسان سے سامنا کم ہی ہوتا ہے ، اس لیے اس کے کاٹنے کی شرح دوسرے زہریلے سانپوں کی نسبت بہت ہی کم ہے۔
ہمالین پٹ وائپر
یہ سانپ پاکستان کے ہمالیہ پہاڑوں کے علاقوں یعنی شمالی علاقہ جات میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دوسرے وائپرز کی نسبت لمبے ہوتے ہیں اور سر سے لے کر دم تک جسم پر دھبے ہوتے ہیں۔ وائپرز کی اہم پہچان ان کے سر کا گردن سے بڑا اور چھپٹا ہونا ہے۔ انتہائی زہریلے ہونے کے بوجود انسانوں سے دوری اور اپنے مسکن میں محفوظ ہونے کی وجہ سے کاٹنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
بلنٹ نوزڈ وائپر یا پہاڑی وائپر سانپ
یہ سانپ پاکستان کے مغربی پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے ہیں ، ان کے سر پر کوئی دھبہ نہیں ہوتا لیکن جسم پر ہمالین وائپر جیسے دھبے ہوتے ہیں۔ یہ بھی انسانوں کے قریب نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی زہریلے ہونے کے بوجود کاٹنے کی شرح نہ ہونے کے برابر رکھتے ہیں۔
بلیک کوبرا
یہ سانپ زیادہ تر ہمالیہ کے پہاڑوں اور میدانی جنگلوں میں بسیرا کرتا ہے۔ اسے سرائیکی میں مشکی بلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس ایک سانپ کو مارنے پر سات اور سانپوں کو مارنا پڑتا ہے جسے سائنس تسلیم نہیں کرتی۔ اسی طرح اس کے سر میں منکا یعنی ناگ منی ہوتا ہے جو سانپ کاٹنے پر زخم سے زہر چوس لیتا ہے ، حقیققت یہ ہے منکے کو اکثر جانوروں کے سموں کو رگڑ رگڑ بنایا جاتا ہے اور نچلے حصے میں سوراخ بنا کر نیل ڈال دیا جاتا ہے جسے دودھ میں ڈالنے پر دودھ نیلا ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے دیکھیے منکے نے زہر چوس لیا ہے حالانکہ متاثرہ شخص کو غیر زہریلے سانپ نے کاٹا ہوتا ہے۔ سائنس منکے کو نہیں مانتی۔
پاکستان میں پائے جانے والے تمام زہریلے سانپوں میں سب سے بڑا سائز کوبرے کا ہوتا ہے ، اسی لیے اسے سانپوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ سنگچوڑ کی طرح اس میں بھی نیورو ٹاکسن زہر ہوتا ہے مگر اس کا زہر سنگچوڑ کے زہر سے پانچ گنا کم زہریلا ہوتا ہے ، اس کے زہر کی ایک بوند سے بیس لوگوں کو مارا جا سکتا ہے۔ اس بات کا اسی فیصد امکان ہوتا ہے کہ کوبرا سانپ نے کاٹنے پر زہر نہیں انڈیلا ہو گا یعنی وائپر کی نسبت اس کے کاٹ سے مریض کے بچنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کا زہر گردوں پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن اس کا زہر وائپر کی نسبت زیادہ جلدی جسم میں سرایت کرتا ہے اور دو سے چھ گھنٹے میں انسان کی موت ہو جاتی ہے مگر بروقت اینٹی وینم ملنے پر انسان مکمل صحت یاب ہو جاتا ہے۔ یہ سانپ بھی غصیلی طبیعت کا مالک ہوتا ہے ، خطرہ محسوس ہونے پر اپنا پھن پھلا لیتا ہے ، زیادہ تنگ کرنے پر یہ انسان کے پیچھے بھی لگ جاتا ہے۔ اسے کئی بار انسانوں اور کاروں کا پیچھا کرتے دیکھا گیا ہے۔ بلیک کوبرا کی رنگت مکمل سیاہ ہوتی ہے اور گردن کے گرد جلد نرم اور پھیلی ہوتی ہے جسے یہ سانپ خطرے کے وقت مزید پھلا لیتا ہے اور گردن پر ایک مخصوص ٹیٹو جیسا نشان ہوتا ہے جو اس کی پہچان کو مزید واضح کر دیتا ہے۔ یہ سانپ اپنے سر کو اوپر اٹھا کر انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔
انڈین بھورا کوبرا
یہ کالے ناگ جیسا ہوتا ہے صرف رنگت بھوری ہوتی ہے۔ تمام کوبرا سانپ انتہائی زہریلے ہیں۔ بڑے ہونے کی وجہ سے یہ سانپ رسل وائپر اور سا سکیلڈ وائپر کو بھی کھا جاتے ہیں۔
آکسس کوبرا یا وسطی ایشیائی کوبرا
یہ پاکستان میں پائے جانے والے کوبرا سانپوں میں سب سے زیادہ زہریلا ہے۔ یہ بھوری رنگت کا ہوتا ہے جس پر گہری سیاہی مائل رنگت کے بینڈز کچھ فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔
اسی طرح سپیکٹیکل کوبرا بھی پاکستان میں پائے جاتے ہیں ، یہ تمام کے تمام انتہائی زہریلے ہیں مگر وائپر کی نسبت بہت کم کاٹتے ہیں۔ ان کی لمبائی آٹھ سے سولہ فٹ تک ہوتی ہے۔
کوبرا سانپ انسان کو کاٹنے کی شرح میں چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔
کامن کیٹ سنیک یا بلی سانپ
اس سانپ کی آنکھیں بلی جیسی ہوتی ہیں اور سر پر y جیسا نشان ہوتا ہے اس کی رنگت چوکلیٹی ہوتی ہے اور سفید نشان ہوتے ہیں اور سفید نشانوں کے کناروں پر سیاہ نشان ہوتے ہیں۔ یہ سانپ جزوی یا کم زہریلا ہوتا ہے اور اس کا زہر انسان پر اثر انداز نہیں ہوتا ، اس کے زہر والے دانت فینگز اوپر کی طرف مڑے ہوتے ہیں۔ یہ پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بالکل بے ضرر ہیں اس کے کاٹنے سے جلن ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ چکر آتے ہیں۔
انڈین راک پائیتھن یا اژدھا
یہ دکھنے میں رسل وائپر جیسا لگتا ہے مگر اس کی رنگت گولڈن اور اس پر چوکلیٹی پھیلے ہوئے پیٹرنز ہوتے ہیں ، اس کا منہ وائپر جیسا لگتا ہے مگر ناک تھوڑی لمبی ہوتی ہے اور سر سرخی مائل ہوتا ہے جو اسے وائپر سے منفرد بناتا ہے۔ یہ گردن کی طرف سے پتلا اور پیچھے سے موٹا ہوتا ہے اور لمبائی میں تمام سانپوں سے بڑا ہوتا ہے یہ سانپ اٹھارہ فٹ سے پچیس فٹ تک بڑا ہو سکتا ہے۔ یہ غیر زہریلا ہوتا ہے اور خطرہ ہونے پر سیٹی جیسی آواز نکالتا ہے۔ یہ غصیلی طبیعت کا مالک ہوتا ہے اور پکڑنے پر کاٹنے کی کوشش کرتا ہے ، منہ بڑا ہونے کی وجہ سے کاٹنے پر زخم بھی بڑا ہوتا ہے۔ یہ اپنے سے تین گنا بڑے دودھ دینے والے جانوروں کو نگل جاتا ہے۔ یہ سب سے پہلے اپنے شکار کو جکڑ لیتا ہے اور آہستہ آہستہ دباؤ بڑھانا شروع کر دیتا ہے اور جانور دم گھٹنے کی وجہ سے مر جاتا ہے اور پھر یہ اسے نگل لیتا ہے۔ کچھ ممالک میں اژدھا کو پالا بھی جاتا ہے اور ان سے مساج بھی کروایا جاتا ہے مگر یہ انسان کو بھی جانوروں کی طرح شکار کر سکتا ہے اس لیے اس سے دور رہنا بہتر ہے۔
یہ سانپ اچھے غوطہ خور مگر لمبے اور بھاری بھرکم جسم کی وجہ سے رینگنے میں سست رفتار ہوتے ہیں۔ یہ سانپ پندرہ منٹ تک بنا سانس لیے پانی کے اندر رہ لیتے ہیں۔
بینڈڈ ککڑی سانپ
یہ سانپ چوکلیٹی بھورے رنگ کا ہوتا ہے جس پر سیاہ بینڈ کچھ کچھ فاصلے پر موجود ہوتے ہیں اور سر پر الٹے وی جیسا سیاہ نشان ہوتا ہے۔ ان کی لمبائی ڈیڑھ فٹ تک ہوتی ہے ، اس کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں اور زبردست کاٹتا ہے مگر زہریلا نہیں ہوتا۔ چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے کھاتا ہے۔
کامن وولف سنیک یا بھیڑیا سانپ
یہ بھی سنگچوڑ کی طرح رات کو باہر آتے ہیں اور سنگچوڑ سے ملتے جلتے دکھائی دیتے مگر ان کی رنگت سرخی مائل چوکلیٹی ہوتی ہے اور گردن سے لے کر دم تک سفید دھاریاں ہوتی ہیں جبکہ سنگچوڑ سیاہ ہوتا ہے اور اسکی سفید دھاریاں گردن سے ایک فٹ بعد شروع ہوتی ہیں۔ یہ اکثر چھپکلیاں کھانے کے لیے گھروں میں گھس آتے ہیں اور پلسٹر کی ہوئی دیواروں پر چڑھ سکتے ہیں۔ یہ غیر زہریلے ہوتے ہیں اور صرف زبردستی پکڑنے پر ہی کاٹتے ہیں۔ یہ شرمیلے ہوتے ہیں اور خطرے کی صورت میں اپنی دم کو تیزی سے آگے پیچھے حرکت دیتے ہیں۔
ریڈ سینڈ بوا یا دو مونہی سانپ
یہ چھوٹے سائز کے سرخ چوکلیٹی نظر آنے والے سانپ ہیں جن کی دم بھی ان کے منہ جیسی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے انہیں دو مونہی سانپ کہا جاتا ہے ، سرائیکی میں اسے پھڑڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کبھی کبھار زمین سے نکلتے ہوئے دم کو پہلے باہر نکالتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر گمان ہوتا ہے کہ دونوں سمت میں چل سکتے ہیں۔ یہ غیر زہریلے اور شرمیلے ہوتے ہیں اور پکڑنے پر بھی انسان کو نہیں کاٹتے ، یہ مینڈک چوہے وغیرہ کھاتے ہیں۔
رسلز بوا یا دو مونہی سانپ
اس کی دم بھی منہ جیسی نظر آتی ہے اور ان کے جسم پر پھیلے ہوئے چوکلیٹی دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ تمام دو مونہی غیر زہریلے ہیں اور بالکل نہیں کاٹتے۔
بلینڈ سنیک یا لانگ نوزڈ ورم سنیک
یہ سانپ کافی چھوٹے ہوتے ہیں اور کینچوے یعنی ارتھ ورم جیسے نظر آتے ہیں ، یہ چونٹیاں اور چھوٹے کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔ یہ غیر زہریلے اور کسان دوست ہوتے ہیں۔
انڈین کامن ریٹ سنیک یا دھامن
یہ بکثرت اور عام پائے جانے والے سانپ ہیں۔ یہ زیتونی یا سیاہی مائل بھورے رنگ کے ہوتے ہیں ، ان کے جبڑوں اور جسم پر جالی دار داریاں ہوتی ہیں ان کی دم لمبی ہوتی ہے ، یہ غیر زہریلے ہوتے ہیں اور سات آٹھ فٹ تک لمبے ہو جاتے ہیں۔ ان کا سر گردن سے موٹا نہیں ہوتا اور گول سیاہ آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ چوہے اور مینڈک کا شکار کرتے ہیں اور کسان دوست ہوتے ہیں۔ پکڑنے پر کاٹتے ہیں مگر بے ضرر ہوتے ہیں۔ خوراک کی تلاش میں گھروں میں گھس جاتے ہیں۔
ڈیاڈم رائل سنیک یا چوہے خور سانپ
یہ سانپ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں ، ان کا سر بیضوی اور ہلکا سا سیاہی ماہل سرخ ہوتا اور جسم پر سرخی مائل دھبے ہوتے ہیں۔ یہ سانپ بھی غیر زہریلے ہوتے ہیں اور چوہے اور مینڈک کھاتے ہیں ، یہ بھی بے ضرر اور ماحول دوست ہوتے ہیں۔
ہمالین بلیک ہیڈ رائل سنیک
یہ ہمالیہ کے پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں یعنی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں۔ ان کی خوراک بھی چوہے اور مینڈک ہوتی ہے ، ان کا سر کالا اور جسم سرخی مائل بھورا ہوتا ہے اور دم لمبی ہوتی ہے۔ یہ زہریلے سانپ کورل سنیک سے مشابہت رکھتے ہیں مگر ان کی دم کورل سنیک کی طرح شوخ سرخ نہیں ہوتی۔ یہ بھی بے ضرر اور ماحول دوست ہوتے ہیں۔
کامن ڈائز سنیک یا واٹر سنیک
یہ سانپ سبزی مائل پیلے رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کی سیاہی مائل بھوری جالی دار دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ ندی نالوں یا ان کے قریب خشکی پر بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ مینڈک اور مچھلیاں کھاتے ہیں اور غیر زہریلے اور بے ضرر ہوتے ہیں مگر غصیلی طبیعت کی وجہ سے پکڑنے یا تنگ کرنے پر کاٹنے کو چڑھ دوڑتے ہیں۔
چیکرڈ کیل بیک واٹر سنیک
یہ بھی زردی مائل پیلی رنگت کے ہوتے ہیں اور جسم پر چوکلیٹی جالی دار دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی مینڈک اور مچھلیاں کھاتے ہیں اور پانی میں یا اس کے قریب خشکی پر بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ سانپ بھی غیر زہریلے اور بے ضرر ہوتے ہیں۔
بف سٹرپڈ کیل بیک واٹر سنیک
یہ سانپ بھوری رنگت کا ہوتا ہے اور اس جسم پر دو متوازی لائنیں ہوتی ہیں جو گردن سے دم تک چلی جاتی ہیں اور ان کے درمیان سلیٹی دھبے ہوتے ہیں۔ یہ بھی غیر زہریلے ہوتے ہیں اور پانی میں پائے جاتے ہیں اور نہ کاٹتے ہیں۔
وائپرین واٹر سنیک یا سمندری سانپ
یہ سانپ پاکستان میں ساحل سمندر پر پائے جاتے ہیں۔ پیلی زیتونی رنگت اور جسم پر کناری دار سیاہی مائل دھاریاں ان کی پہچان ہے۔ مچھلیاں اور دوسرے آبی جانوروں کو خوراک بناتے ہیں ، بالکل غیر زہریلے اور بے ضرر ہوتے ہیں۔
گلوزی بیلیڈ ریسر سنیک یا تیز رینگنے والے سانپ
ان سانپوں کا پیٹ چمکدار ہوتا ہے اور مٹیالے رنگ کے ہوتے ہیں جن پر سیاہی مائل دھبے پائے جاتے ہیں۔ ان کا جسم پتلا اور دم لمبی ہوتی ہے اور تیز رینگتے ہیں ۔ ریسر سنیکس کی رنگت بچے سے جوان اور پھر بڑے ہونے پر تبدیل ہوتی رہتی ہے ، کچھ بڑے ہونے پر کوبرا جیسے بھورے ہو جاتے ہیں کوبرا اور ان میں صرف پھن کا فرق رہ جاتا ہے اور ان کی دم کوبرا سے لمبی ہوتی ہے۔ یہ بہت زیادہ پھرتیلے ہوتے ہیں ، دوسرے غیر زہریلے سانپوں کی طرح چوہے وغیرہ کھاتے ہیں۔ غیر زہریلے ہوتے ہیں اور پکڑنے پر کاٹتے ہیں اور ان کے دانت انسانی جسم میں ٹوٹ جاتے ہیں لیکن ہلکے پھلکے زخم سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سانپ بھی دوسرے چوہے خور سانپوں کی طرح بکثرت پائے جاتے ہیں۔
سپاٹڈ ڈیزرٹ ریسر
یہ سانپ صحرائی علاقوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں ان کی رنگت مٹیالی اور جسم پر سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں جو پیٹ پر بھی موجود ہوتی ہیں۔ پھرتیلا جسم اور لمبی دم ان کی پہچان ہے۔ غیر زہریلے اور بے ضرر ہوتے ہیں۔
جونز کلف ریسر
یہ سانپ پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں ، انکی رنگت پتھروں جیسی ، منی زردی مائل اور جسم پر ہلکی سلیٹی دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی دوسرے ریسرز کی طرح غیر زہریلے ، بے ضرر اور تیز رینگتے ہیں۔
اس طرح کے بہت سے غیر زہریلے سانپ پاکستان میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن کی تعداد پچاسی فیصد ہے اور صرف پندرہ فیصد ہی زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں۔ سانپ چاہے زہریلے ہوں یا غیر زہریلے انسان سے دور رہنے کی اور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور ماحول کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ان کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ جس طرح سانپ دوسرے سانپوں ، چوہوں ، مینڈک اور حشرات کا شکار کرتے ہیں اسی طرح چیل کوئے بھی ان کا شکار کر کے اپنی خوراک کا بندوبست کرتے ہیں۔
ایک جنگل میں فرض کریں شیر اور ہرن رہتے ہیں اور وہاں ڈھیر سارا سبزہ اور پانی ہے۔ ہرن سبزہ کھاتے ہیں اور شیر ان کا شکار کرتے ہیں اگر آپ شیروں کو خونخوار درندہ کہہ کر مار دیں تو کیا ہو گا ہرنوں کی تعداد زیادہ ہوتی جائے گی اور ایک دن جنگل کا سبزہ کم پڑ جائے گا اور سبزہ ختم ہوتے ہی ہرن بھی مرنا شروع ہو جائیں گے اور جنگل کا نظام تباہ ہو جائے گا۔ اس لیے جانداروں کو مارنا اور ان کے مسکن کو تباہ کرنا ہمارے لیے اور ہماری زمین کے لیے نقصان دہ ہے۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل