ہومUncategorizedچلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ۔۔۔ ماسکو میں کلیاتِ...

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ۔۔۔ ماسکو میں کلیاتِ فیض احمد فیض کے روسی زبان میں ترجمعہ پر مبنی کتاب کی رونمائی کا احوال۔

رپورٹ: اشتیاق ہمدانی

فیض احمد فیض ایک ایسے شاعر ، شاعروں کی کہکشاں میں داخل ہوئے، جن کی شاعری نہ صرف قومی بلکہ عالمی ادب کا بھی سرمایہ بن گیا۔ 20ویں صدی کے اردو شاعروں میں سے علامہ محمد اقبال کے علاوہ کسی کو بھی اپنی زندگی میں عالمی سطح پر شہرت اور ایسی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو فیض کو اپنے ہم وطنوں میں حاصل ہوئی۔ ان کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں اور فوجی حکومت کی آمریت کے خلاف سازش تیار کرنے کے الزام میں گرفتاریوں نے ان کے ارد گرد بہادری اور جرات کی ایک چمک پیدا کر دی۔ فیض کے کلام کی خصوصیات زندگی کی تصدیق کرنے والے رویوں، احساسات کی فطری اور سوچ کی گہرائی، “دنیا کی مشکلات ” سے نکلنے کے لیے ہمدردی ہے، جو شاعر کے لیے کبھی “اجنبی” نہیں رہی۔ فیض اردو ادب میں ترقی پسند رجحان کے نمائندہ ہیں، جن کی صفوں میں “بائیں بازو” کے لکھنے والوں کو متحد کیا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر کی طرح، فیض نے مارکسی عقائد کا اشتراک کیا اور وہ سوشلسٹ نظریات کے حامی تھے، لیکن وہ کبھی کسی پارٹی یا تنظیم میں شامل نہیں ہوئے۔

روس کے تاریخی انسٹیٹوٹ آف اورینٹل سٹڈیز میں کلیاتِ فیض احمد فیض کے روسی زبان میں ترجمعہ پر مبنی کلیات فیض کی رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی۔یہ کتاب سفارتخانہ پاکستان، انسٹیٹوٹ آف اورینٹل سٹڈیز اور خودوژدوستنایہ پبلیکیشنز کے تعاون سے شائع کی گئی ہے
یہ اپنی نوعیت کی روسی زبان میں فیض کی شاعری سے متعلق منفرد کتاب ہے ۔ اس کو ڈاکٹر لدمیلا ویسیلیوا جو کہ اردو زبان میں مہارت رکھتی ہیں نے مرتب کیا ہے-

کتاب کی رونمائی کی تقریب سے خطاب میں پاکستان کے روس میں سفیر شفقت علی خان نے اس کو دونوں ممالک کے درمیان روابط کا اہم ستون قرار دیا
انہوں نے کہا کہ فیض کی شاعری روسی عوام کے دلوں میں گھری ہوئی ہے اس کتاب کی اشاعت سے دونوں ممالک کے عوام کے روابط کو مزید تقویت ملے گئ۔ پاکستان کے سفیر نے کہا کہ انکی اپنی فیض کے ساتھ فیملی روابط تھے فیض ہی کے کہنے پر انکی اہلیہ کا درمیانی نام “مدیحہ “ رکھا گیا تھا
فیض کیلیے ماسکو میں محبت اور خلوص کا اہم جز پایا جاتا ہے پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض نے اپنی کئی فلک شگاف اشعار ماسکو میں لکھے ۔ شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ ماسکو کے لوگ ہم سے بھی اسی گرم جوشی سے پیش آتے ہیں ۔ انسٹیوٹ کے صدر وٹلے نومکن نے اپنی فیض احمد فیض کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کیا انہوں نے کتاب کو پاکستان اور روس کے تعلقات میں فروغ کا ایک اہم اقدام اقرار دیا-

ڈاکٹر علی اکبر کبروف نے اردو شاعری کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ڈاکٹر لدمیلا ویسیلیوا نے کتاب کے بارے میں اپنی آرا اور اس کاوش پر سفارت خانے پاکستان کی جانب سے راہنمائی پر شکریہ ادا کیا ۔ فیض احمد فیض کے حوالے سے ڈاکٹر لدمیلا ویسیلیوا نے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میری فیض احمد فیض سے ملاقات ہوئی ہے.

صدائے روس سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر لدمیلا ویسیلیوا نے کہا کہ جہاں تک فیض صاحب کی بات ہے میں فیض صاحب کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہوں لیکن میں بہت مختصر بتانا چاہوں گی کہ ہر نئی کتاب کا انا خوش ائند ہوتا ہے ، اور ادب کی دنیا میں خصوصا فیض صاحب کی کتاب کا انا روسی قارئین کے لئے بہت ہی اہم ہے- اس میں ماسکو میں پاکستانی ایمبیسی کا انیشیٹو تھا انھوں نے مجھے یہ زمہ داری سونپی اور میرے لئے یہ بات باعث عزت اور مسرت ہے کہ پاکستان ایمبسی نے فیض احمد فیض کی کتاب کے لئے میرا انتخاب کیا.

صدائے روس سے بات کرتے ہوئے روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کے کلچرل سینٹر کی ڈائریکٹر، لانا راوندی فدائی نے کہا کہ فیض احمد فیض ایک عظیم شاعر تھے، وہ لوگوں کے درمیان روابط کی ایک بہترین مثال تھے. ان کا کہنا تھا کہ سویت یونین اور پاکستان تعلقات میں بہتری کے لئے ان کا عظیم کردار تھا، جس کی اہمیت تھی. انہوں نے دونوں ملکوں کو دکھایا کہ ان کی مشترکہ مضبوط تاریخی بنیاد ہے. ان کی ملتی جلتی ثقافت ہے، جس سے لوگوں کے لوگوں سے روابط بڑھائیں گے.

اس سے قبل تقریب کے ابتدایا میں لانا راوندی فدائی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہم یہ تقریب مانا رہے ہیں جس میں پاکستانی سفارت خانے کے لوگ اور انسٹیٹیوٹ آف اورینٹل سٹڈیز کے لوگ شامل ہوئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہمارا انسٹیٹیوٹ آف اورینٹل سٹڈیز ایک اچھا پلیٹ فارم ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے باہمی روابط کو فروغ ملے گا. آپ نے دیکھا ہو گا کہ باضابطہ سفارت کاری اور لوگوں کے درمیان روابط جڑ چکے ہیں. اس سے لوگ ایک دوسرے کو بہتر جان اور سمجھ سکتے ہیں. جہاں تک بات ہے فیض احمد فیض کی تو ان کی شخصیت انسانیت پرمبنی تھی. انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کے روابط بڑھنے کی راہ ہموار کی.

صدائے روس سے بات کرتے ہوئے ارینا مکسمینکو نے کہا کہ جب پہلی بار انہوں کی بیٹیوں نے منزہ اور سلیمہ نے ان کی یاد میں ایک پروگرام کا انعقاد کروایا، جب ان کی سالگرہ تھی 13 فروری کو تب مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا، وہ سوویت یونین کا دور تھا اور میں سوویت وفد کے ساتھ پاکستان گئی تھی. مجھے یاد ہے تب لاہور کے سب سے بڑے چوک میں 5 یا 6 ہزار لوگ جمع ہو گئے تھے، اور اس موقع پر فیض احمد فیض کی شاعری سنائی گئی. یہ ہی وجہ ہے کہ یہ میرے لئے بہت اہم دن رہا ہے آج تک. ان کا کہنا تھا کہ آج بہت خوشی کی بات ہے کہ فیض احمد فیض کی شاعری روسی زبان میں شائع کی گئی ہے. انہوں نے کہا کہ کتاب کے پیش لفظ روس میں متعین پاکستان کے سفیر شفقت علی خان نے لکھا ہے. اور یہ میرے خیال میں روس پاکستان عوام دوستی کی اہم نشانی ہے.


صدائے روس سے بات کرتے ہوئے ارینا سرینکو کا کہنا تھا کہ انشاللہ دونوں ممالک کی دوستی مستقبل میں مضبوط ہوتی جائے گی.فیض احمد فیض کے ساتھ ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گپ شپ ہوتی رہتی تھی، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ شام کو فیض احمد فیض روسی شاعروں کے ساتھ چائے پیتے تھے اور شاعری کرتے تھے اور میں ان کے درمیان ترجمان کی حثیت سے موجود ہوتی تھی. اور روسی اور اردو ادب اور شاعری میں بہت خلوص اور محبت ہے. اور یہ وجہ دونوں زبانوں کے شاعروں کو ملاتی ہے.۔

اس موقع پر ڈاکٹر ناصر گاگی نے فیض احمد فیض کے ساتھ اپنی ملاقات اور ان کا کلام خوبصورت انداز میں پیش کیا.

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل