تحریر.تیموربیگ
گزشتہ انسانوں کے جنگل سے نکل کر حیوانوں کے جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا.قدرت کے حسین نظاروں کو دیکھنے اور کچھ دن اس دنیا میں رہنے کا موقع ملا.پیدل سفر کی وجہ سے پہلے دن تو تھکان تھی زیادہ آرام کیا.دوسرے دن جنگل کی حالت دیکھی ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے 1947 کا غدر ہو.جیسے تیروں,تلواروں اور نیزوں سے زخمی اور شہداء کی طرح زمین پر کٹے ہوۓ جلے ہوۓ اور پڑے ہوۓ درخت شام غریباں کا منظر پیش کررہے تھے.ان کے لٹنے کی داستاں چرند پرند مختلف آوازو ں میں سنا رہے تھے. چشمے آنسوں کی طرح ٹپک ٹپک کر بتا رہے تھے ان ہی درختوں کی وجہ سے ہم نے بہنا چھوڑ دیا ہے.اور زار زار رو کر بتا رہے تھے کہ تم انسانوں نے ہماری دنیا برباد کر دی ہے.تم ہمارے قاتل ہو.
بیشک اللہ نے ہمیں تمہاری ہی خدمت کے لیے پیدا کیا تھا.لیکن تم نے ہمارے حقوق اور زندگی کو اجاڑا ہے.جنگلی حیات تو کب کے ہجرت کرچکے ہیں.تم نے ہمیں آگ لگائی ہے.
آزادکشمیر میں قبائلی ازم,کے بعد سب سے بڑی بیماری محکمہ ازم ہے.مخلوق خدا کی خدمت ان کا مشن اور مقصد نہیں .
?عوام اگر کسی وکیل کی ایک غلطی پر آواز بلند کرے تو پورا کالا کوٹ آمادہ جنگ ہو گا.ایک ڈاکٹر کی غلطی کی نشاندہی کرو پورا سفید کوٹ حرکت میں آ جاۓ گا.اگر کسی ایک استاد محترم کی غلطی کی نشاندہی کروں تو پوری ٹیچرز آرگنائزیشن حرکت میں آۓ گی.کسی ایک پٹواری بھائی کی غلطی کی نشاہی کرو تو محکمہ کی تنظیم حرکت میں آۓ گی.اگر جنگلات والوں کی غلطی کی نشاندہی کرو پورا فاریسٹ گارڈ ایسوسی ایشن نیزے تلواریں اور تیر لے طبل جنگ کرتے ہیں.یہ بڑا المیہ ہے.
آزادکشمیر میں یہ ساری تنظمیں حکومت وقت کی چھتری تلے بنتی ہیں.ان تنظیموں کے صدور زیادہ تر حکومت نواز اور وزیر مشیر کے چہتے اور منظور نظر ہوتے ہیں.جن کا کام
?مٹی پاٶ….مل بہہ کے کھاٶ…
ان کے خلاف عوام شکایت نہیں کرسکتی کیوں ان کوپتہ ہوتا ہے کہ ہمارے اوپر نیوتا جی رام رام ستے موجود ہے.
ہندی فلم کا مشہور ڈائلاگ ہے….
?چور چور ماسیر بھائی……….نیوتا لوگ پھپھیر بھائی…
آزادکشمیر میں جنگلات 47فیصد تھے.آزادکشمیر کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ جنگلات اور بکروال ہیں.لیکن جنگلات کی حالات اس وقت بہت خراب ہے.
?سابق وزیراعظم آزادکشمیر ممتاز حسین راٹھورصاحب نے تقریر کرتے ہوۓ کہا تھا کہ
جنگلات کی حالت یوں بیان کی تھی .
پہلے جنگلات ایسے تھے جیسے سردار قیوم خان صاحب کی داڑھی مبارک اور آج ایسے ہیں اپنے سر سے ٹوپی اتار کے بتائی ایسے ہے.
آزادکشمیر میں ٹمبر مافیہ.قبضہ مافیا اس قدر کے بےلگام ہیں.کہ گزشتہ دنوں چناری کے مقام پر لکڑ لگنے سے ایک خاتون فوت ہوگئ.جنگلات کے رقبے پہ قبضہ ہے.سرکاری رقبے پر ملی بھگت سے عمارتیں بنوا کر ٹین کی چھتیں ڈلوا کر جنگل کا درجہ حرارت بڑھا دیا ہے.
ٹمبر مافیا پہلے درخت کو آگ لگاتا ہے.جب یہ سوکھ جاۓ تب فارسٹر صاحب ,گارڈ صاحب اور واچر صاحب خدمت ََبَلمکٌتہ…..کے عوض دے دیتے ہیں.
نگہبان بن کے خود ہی جو چمن کی آبرو لوٹے…
عقیدت چھوڑ دو چمن والو ایسے نگہبان سے….
ہمارے معاشرے میں بڑی سیٹوں پہ بھیٹے ہوۓ لوگوں کے فرائض منصبی میں غفلت پر بات کی جاۓ تو یہ تنظیم کا .برادری کا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے.
پھچلے دنوں یونیورسٹی کیمپس میں کسی اہم مسئلے کے سلسلے میں جانا ہوا تو دوران گفتگو ڈائیریکٹر صاحب جب مسئلہ حل نہ کر سکے تو دبے لفظوں میں کہا
فلاں اخبار والے میرے انکل ہیں.مجھ سے نہیں ڈرتے نہ ڈرو اخبار سے انکل سے ڈرو…..پورا معاشرے کو خوف دے کر ہمیں اپنے حقوق سے اور شعور سے دور کیا جارہا ہے.
ہمارے ذہنوں کی پستی یہ ہے کہ ہم سرکاری چیز کو حکومت کی ملکیت سمجھتے ہیں.سرکار دشمنی ہمارے ذہنوں میں ہے.بھائی یہ سرکار نہیں بلکہ ہماری ہے.ہم اس کے مالک ہیں.ملازم کا تبادلہ ہوجاۓ گا.ریٹائرڈ ہو جاۓ گا.
جنگل ہماری نسلوں کا ہے.ہمیں اس کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے.جنگل خالی ہورہے ہیں.
جنگلات بچاٶ…..ماحول بچاٶ…ے ساتھ!