شا نواز سیال
پنجاب کے پاکستان کے سب سے اہم صوبے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں تاریخ میں پہلی بار اتنی زیادہ نشتوں ضمنی انتخاب کا ہورہا ہے سیاسی جماعتوں کو خوب پزیرائی مل رہی ہے حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی جماعت نے بھی بڑے بڑے جلسے کیے ہیں یہ انتخابات اس حوالے سے بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ اس کے نتائج نے آنے والے انتخابات کی راہ ہموار کریں گے دوسرا وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کا فیصلہ بھی ضمنی انتخابات کے نتائج کریں گے کہ 22جولائی کے بعد پنجاب کی کمان کس جماعت کے پاس ہوگی اس انتخابات کے حوالے سے کئ سروے کیے گئے ہیں ہر ایک نے اپنی رائے دی ہے کہ کانٹے کا مقابلہ ہے میرے تجزیے کے مطابق حکومتی جماعت 13حلقوں میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے پانچ حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے دو حلقوں میں ن لیگ کا مقابلہ ن لیگ سے ہے وہ کونسے حلقے ہیں جائزہ لیتے ہیں –
راولپنڈی کے حلقہ پی پی 7 کو اہم انتخابی میدان سمجھا جا رہا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے آزاد امیدوار راجہ اصغر احمد 44 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن کے راجہ محمد علی رہے جنہوں نے 42 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار غلام مرتضی ستی تیسرے نمبر پر رہے جنہوں نے 40 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے بعد راجہ اصغر احمد تحریک انصاف میں شامل ہوگئے –
تحریک عدم اعتماد کے وقت راجہ اصغر احمد تحریک انصاف کے منحرف اراکین میں شامل ہو گئے اور اب وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف نے ان کے مقابلے میں کرنل (ر) شبیر اعوان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔حلقہ پی پی 7میں ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
یہ حلقہ کہوٹہ، کلرسیداں اور راولپنڈی کے مضافات پر پر مشتمل ہے۔ جبکہ ن لیگ کے حنیف عباسی، شاہد خاقان عباسی، پی پی پی کے راجہ پرویزاشرف اور تحریک انصاف کے صداقت عباسی سمیت چوہدری نثار کا اثر و رسوخ بھی اس حلقے میں مانا جاتا ہے۔
حلقہ پی پی خوشاب 83 سے پہلے آزاد امیدوار جیتے تھے منتخب ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اب وہ ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے امیدوار گل اصغر خان نے اس حلقے صرف 8 ہزار ووٹ لیے تھے اور پانچویں نمبر پر آئے تھے۔ اب تحریک انصاف نے اس حلقے میں حسن ملک کو ٹکٹ دیا ہے۔یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
بھکر حلقہ پی پی 90 2018کا انتخاب آزاد امیدوار سعید اکبر نوانی جیتے تھے تاہم انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی۔ ان کے مقابلے میں ن لیگ کے عرفان اللہ خان نیازی ن لیگ کے امیدوار تھے جو یہ انتخاب تقریبا 15ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔ اب تحریک انصاف نے عرفان اللہ خان نیازی کو ٹکٹ دے دیا ہے جبکہ ن لیگ نے سعید اکبر نوانی کو۔ سعید اکبر نوانی 1985 سے سیاست میں ہیں اور آٹھ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
حلقہ پی پی97 فیصل آباد یہاں 2018کا الیکشن اجمل چیمہ جیتے تھے بعد تحریک انصاف کا حصہ بنے پھر تحریک عدم اعتماد کے وقت منحرف اراکین میں شامل ہوگئے –
سابق صوبائی وزیر محمد اجمل چیمہ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے مد مقابل سابق سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری محمدافضل ساہی کے صاحبزادے سابق ٹکٹ ہولڈر علی افضل ساہی ایک بار پھر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پرانتخاب لڑرہے ہیں –
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجمل چیمہ کو پارٹی وفارداریاںتبدیل کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف اور ن لیگ کے مقامی ورکرز کی ناراضگی کا سامنا بھی ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں کانٹے کا مقابلہ ہے –
سابق وزیر محمد اجمل 2018ء کے الیکشن کے مطابق بطور آزاد امیدوار42273ووٹ لے کر کامیاب ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہو گئےتھے ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار علی افضل ساہی دوسرے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے آزاد علی تبسم حلقے میں تیسری پوزیشن پر رہے۔
حلقہ پی پی125 جھنگ
تحریک انصاف کے منحرف امیدوار فیصل حیات جبوآنہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے 2018ء الیکشن کے ٹکٹ ہولڈر میاں محمد اعظم چیلہ کو ایک بار پھر انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اعظم چیلہ دو مرتبہ ایم پی اے رہ چکے ہیں۔
اس حلقے میں تیسرے اہم امیدوار سابق ایم پی اے مسلم لیگ ن افتخار احمد بلوچ ہیں جو حلقے میں کثیر تعداد میں برادری کا ووٹ بینک رکھتے ہیں۔افتخار احمد بلوچ 2008کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے ایم پی اے منتخب ہوئے بعد ازاں مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے تھے۔
اس حلقے میں دیگر امیدواروںمیں طاہر حبیب(پیپلزپا رٹی) افتخار بلوچ (آزاد) شامل ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں آزاد امیدوار فیصل حیات جبوآنہ کامیا ب ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار سابق رکن صوبائی اسمبلی میاں محمد اعظم کو شکست دی تھی۔ کامیابی کے بعد وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
حلقہ پی پی127جھنگ
ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے منحرف سابق رکن صوبائی اسمبلی مہر محمد اسلم بھروانہ کو مسلم لیگ ن نے انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے 2018ء الیکشن کے ٹکٹ ہولڈر مہر محمد نواز بھروانہ کو ہی ن لیگ کے مد مقابل اتارا ہے۔ مہر نواز بھروانہ2018ء کے جنرل الیکشن سے قبل ہی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔
مہر نوا ز بھروانہ اس سے پہلے چار مرتبہ ایم پی اے رہ چکےہیں۔ 2018ء عام انتخابات میںآزادامیدوار مہر محمد اسلم کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصا ف کے امیدوار مہر محمد نوازحلقے میں دوسرے نمبر پر آئے۔
دونوں امیداروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کے بعد صرف 790 ووٹوں کے مارجن سے ہار اور جیت کا فیصلہ ہوا۔ مہر محمد اسلم نے بعد ازاں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں پر کانٹے کا مقابلہ ہے –
اگر شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 140 کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن نے علیم خان گروپ کے ترجمان اور ماضی میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیت کر وزیر بننے والے میاں خالد آرائیں کو ٹکٹ دیا ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ایک نئے امیدوار خرم شہزاد ورک کا انتخاب کیا ہے۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
ان ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ چار نشستوں پر انتخابات صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہو رہے ہیں۔
اگر حلقہ وار ان کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے پی پی 158 کا نمبر آتا ہے۔ یہ حلقہ گڑھی شاہو، مصطفی آباد، لال کرتی کینٹ اور شاہ جمال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس حلقے سے 2018 کے انتخابات میں اس وقت کے تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کامیاب ہوئے تھے۔ علیم خان نے 52 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا احسن شرافت 45 ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
اب مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دوبارہ احسن شرافت کو جاری کیا ہے۔ جنہیں اب علیم خان، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے میاں اکرم عثمان کو ٹکٹ جاری کیا ہے جو کہ پارٹی راہنما میاں محمود الرشید کے داماد ہیں۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
لاہور کا دوسرا حلقہ پی پی 167 ہے اس حلقے سے 2018 میں تحریک انصاف کے نذیر احمد چوہان نے مسلم لیگ ن کے میاں محمد سلیم کو ہرا کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اب مسلم لیگ نے نذیر چوہان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے اپنے ایک کارکن شبیر گجر کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ حلقہ جوہر ٹاؤن اور وفاقی کالونی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
صوبائی دارالحکومت کا تیسرا حلقہ پی پی 168 ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے سعد رفیق نے یہاں سے کامیابی سمیٹی تھی۔ بعد ازاں ان کے مستعفی ہونے پر ضمی انتخابات میں تحریک انصاف کے اسد کھوکھر جیت گئے۔ اسد کھوکھر جب تحریک انصاف کے منحرف گروپ میں شامل ہوئے تو اب ن لیگ نے انہیں ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اپنے ایک کارکن ملک نواز اعوان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
چوتھا حلقہ پی پی 170 ہے یہاں سے مسلم لیگ ن کی جانب سے چوہدری امین گجر امیدوار ہیں۔ چوہدری امین گجر ماضی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر عون چوہدری کے بھائی ہیں۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ظہیر کھوکھر کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ یہاں پر بھی ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
ساہیوال کے حلقہ پی پی 202 سے تحریک انصاف کے منحرف سابق رکن اسمبلی نعمال لنگڑیال ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ ان کےمقابلے میں تحریک انصاف نے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر میجر ر غلام سرور کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ نعمان لنگڑیال بزدار حکومت میں وزیر بھی رہے -یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
حلقہ پی پی 217 ملتان
پی ٹی آئی نے اس صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے زین قریشی کو ٹکٹ دیا ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چئیرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے ہیں۔ سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست اس حلقے سے شاہ محمود قریشی جیت گئے تھے تاہم انھوں نے پی پی 217 سے پنجاب اسمبلی کے لیے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ یہاں انھیں محمد سلیم نعیم کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔
سلیم نعیم کو ملتان کے اس حلقے میں پی ٹی آئی کا ‘دیرینہ کارکن’ تصور کیا جاتا تھا تاہم ان کی جماعت نے ان کے مقابلے میں شاہ محمود قریشی کو ٹکٹ دیا۔ لیکن سلیمان نعیم نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے کر الیکشن جیت لیا۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے اس وقت کے سرکردہ رہنما جہانگیر خان ترین حکومت سازی کے وقت سلیمان نعیم کو پی ٹی آئی میں واپس لے آئے تھے۔ تاہم حال ہی میں وہ بھی منحرف اراکین کی اس فہرست میں شامل تھے جنھوں نے وزیرِاعلٰی کے انتخاب میں ن لیگ کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔یہاں پر کانٹے کا مقابلہ ہے –
لودھران کے حلقہ پی پی 224 سے پاکستان تحریکِ انصاف کے زوار حسین وڑائچ گذشتہ عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ اور حال میں منحرف ہونے والے اراکین میں شامل تھے۔
اب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے عامر اقبال شاہ قریشی کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ وہ اس سے قبل ایک مرتبہ ن لیگ اور ایک مرتبہ ق لیگ کی ٹکٹس پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
ان کے والد پیر اقبال شاہ قریشی نے سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ن لیگ کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اس وقت کے پی ٹی آئی کے امیدوار اور جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی خان ترین کو شکست دی تھی۔یہاں پر کانٹے کا مقابلہ ہے-
حلقہ پی پی 228 لودھراں
کی دوسری نشست پر بھی پاکستان مسلم لیگ ن نے نذیر احمد خان کو ٹکٹ دیاہے جو پی ٹی آئی کے منحرف رکن تھے اور گذشتہ عام انتخابات میں اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔
تاہم لودھراں کے اس حلقے میں آزاد امیدوار پیر سید رفیع الدین شاہ بخاری کو بھی ایک مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اگر وہ نشست جیت بھی جاتے ہیں تو وہ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائیں گے۔
یوں اس حلقے میں پی ٹی آئی کو دوہرے مقابلے کا سامنا ہے۔ اس حلقے میں مقابلے کے لیے پی ٹی آئی نے عزت جاوید خان کو اپنا امیدوار مقرر کیا ہے۔
انھوں نے سنہ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور چند سو ووٹوں کے فرق سے پیر سید رفیع الدین شاہ کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔یہاں پر ن لیگ اور آزاد امیدوار کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے –
بہاولنگر کے حلقہ پی پی 237 سے امیدوار میاں فدا حسین آزاد حیثیت میں انتخاب جیتے تھے بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور اب ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف نے ان کے مقابلے سید آفتاب رضا کو اپنا امیدوار چنا ہے جو کہ ایک مرتبہ چیئرمین یونین کونسل رہے ہیں۔
یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے-
حلقہ پی پی 272 مظفر گڑھ
صوبائی اسمبلی کی یہ نشست پاکستان تحریکِ انصاف کی سابق رکن پنجاب اسمبلی سیدہ زہرہ بتول کے منحرف ہونے پر خالی ہوئی۔ اسی حلقے سے ان کے صاحبزادے سید باسط سلطان بخاری پی ٹی آئی کے ‘ناراض’ رکن قومی اسمبلی ہیں۔
ضمنی انتخابات میں باسط سلطان کی اہلیہ زہرہ باسط بتول ن لیگ کی امیدوار ہیں۔ لیکن دوسری طرف باسط سلطان کے بھائی ہارون بخاری بھی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔ ایک ہی خاندان کی ان دو شخصیات میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔
ایسے میں پاکستان تحریکِ انصاف نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے معظم خان جتوئی کو میدان میں اتارا ہے۔ وہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے جتوئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کزن عبدالقیوم خان جتوئی سنہ 2008 سے 2010 تک صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
روایتی طور پر اس حلقے میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے شخصیات اور برادری سسٹم کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیا جاتا ہے۔ معظم خان جتوئی نے سنہ 2018 میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن آزاد امیدوار باسط سلطان سے شکست کھا گئے تھے۔
اس سے قبل وہ ایک مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔یہاں پر کانٹے دار مقابلہ ہے –
مظفر گڑھ کے ہی حلقہ پی پی 273 میں مسلم لیگ ن نے محمد سبطین رضا کو ٹکٹ جاری کیا ہے جوکہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف نے یہاں سے یاسر عرفات جتوئی کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ مظفر گڑھ کے دونوں حلقوں میں تحریک انصاف نے جتوئی قبلیے کو اکھٹا کر لیا ہے۔ جس سے مقابلہ سخت ہو گیا ہے۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
لیہ کے حلقہ پی پی 282 سے مسلم لیگ ن نے محمد طاہر رندھاوا کو ٹکٹ جاری کیا ہے جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے الیکشن جیتا اور پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ جب کہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اپنے پرانے ہارنے والے امیدوار قیصر عباس خان مگسی کو ہی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کے امیدوار محمد ریا ض اس حلقے میں تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ یہاں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے –
حلقہ پی پی 288 ڈیرہ غازی خان
جنوبی پنجاب کا یہ حلقہ خاص طور پر دیہی علاقوں اور کچھ ٹرائیبل علاقے پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں کھوسہ خاندان کافی زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
گذشتہ عام انتخابات میں اس حلقے سے محسن عطا کھوسہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس سے قبل وہ ن لیگ کی ٹکٹ پر بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے تھے۔
ضمنی انتخابات وہ تاہم خود حصہ نہیں لے رہے اور ان کی جگہ ان کے کزن عبدالقادر خان کھوسہ ن لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے اس حلقے میں جس کو اپنا امیدوار چنا ہے وہ بھی محسن عطا کھوسہ کے کزن ہیں۔ سردار سیف الدین کھوسہ نے سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی ہی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
وہ ایک طویل عرصے تک پاکستان مسلم لیگ ن کے دیرینہ رہنما رہنے والے سابق سینیٹر سردار ذولفقار خان کھوسہ کے صاحبزادے ہیں۔ سنہ 2018 سے قبل وہ خود بھی ایک طویل عرصے تک ن لیگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور کئی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔یہاں پر کانٹے کامقابلہ ہے
میرے تجزیے کے مطابق کے حکومتی جماعت13سیٹوں پر مضبوط دکھائی دے رہی ہے حلقہ پی پی 7راولپنڈی,حلقہ پی پی 83خوشاب,حلقہ پی پی 90بھکر,حلقہ پی پی125جھنگ حلقہ پی پی 140,حلقہ شیخوپورہ, حلقہ پی پی 158لاہور,حلقہ پی پی 167لاہور,حلقہ پی پی 168لاہور ,حلقہ پی پی 170لاہور,حلقہ پی پی 202ساہیوال ,حلقہ پی پی 237بہاول نگر, حلقہ پی پی 273مظفرگڑھ ,حلقہ پی پی 282لیہ
جبکہ پانچ حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف سے کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہے -جہاں کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہے وہ حلقے یہ ہیں ؟حلقہ پی پی 97فیصل آباد, حلقہ پی پی127جھنگ,حلقہ پی پی 217ملتان ,حلقہ پی پی 224لودھراں,حلقہ پی پی 288ڈی جی خان –
اب وہ حلقے جہاں ن لیگ کا ن لیگ سے مقابلہ ہے حلقہ پی پی 228لودھراں اور حلقہ پی پی 272مظفر گڑھ