ماسکو(صدائے روس)
التوفیووا اسلامک سینٹر ماسکو میں میں اردو اور روسی زبان میں دوسری امام حسین ع کانفرنس منقعد ہوئی ، جس میں پاکستان ، ایران ، روس اورآذربائیجان کے مندوبین نے شرکت کی. اس سال اس کانفرنس کا موضوع : عصرحاظرپر تعلیمات امام حسین ع کا اثر تھا. مقررین نے امام حسین ع کی تعلیمات، طرز زندگی، اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی کو گزرنا پر زور دیا. اس کانفرنس میں شرکا نے مذہبی جوش جذبے سے شرکت کی اور بارگاہ امام عالی مقام میں نذرانہ عقیدت پیش کیا. اسٹیج سیکرٹری کی فرائض سید علی کامران زیدی نے بخوبی انجام دئیے.
اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ نجیب الحسن زیدی نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں ماسکو میں ہونے والی امام حسین کانفرنس کا حصہ ہوں. انہوں نے کہا کہ میرے تعلق اس سرزمین سے ہے جس کی آزادی کی فکر امام حسین کی بنیاد پر ہوئی. علامہ نجیب زیدی نے کہا کہ ہمارے ملک کے بانی گاندھی جی نے واضح علان کیا تھا کہ مجھے یہ آزادی نہیں مل سکتی تھی اگر سیدالشہدا کی تعلیمات نہ ہوتیں. انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں امام حسین کے ذکر کی ضرورت کیوں ہے؟ اور قیام امام حسین کے نتائج اور اثرات عصرحاضر میں کیا ہیں؟ انہوں نے آج ہم اپنے موجودہ حالات کو دیکھتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہر طرف ظلم و ستم ہے، مظلوموں کے حق کو مرا جا رہا ہے، غریبوں کو ستایا جا رہا ہے، تو اس دور میں ضروری ہے کہ ہم حق و باطل کو پہنچانے. اس ہی لئے امام حسین کا ذکر ضروری ہے کہ ان کا ذکر معیار حق و باطل ہے. علامہ نجیب نے کہا کہ واقعہ کربلا 61 ہجری 1400 برس قبل ہوا لیکن آج اکیسوی صدی میں کربلا کی تعلیمات کو ہم کیسے اپنے وجود میں میں لا سکتے ہیں؟ تو اس کا بہت مختصر سا جواب یہ ہے کہ انسان صرف بدن نہیں ہے بلکہ انسان دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے جس میں ایک اس کا بدن اور ایک اس کی روح ہے. انہوں نے کہا انسان کی جتنی بھی ترقی ہے وہ انسان کی ظاہری اور مادی ترقی اس دنیا میں ہوئی ہے. لہذا روح کے جو تقاضے تھے وہ وہی تھے جو 1400 برس قبل تھے. انہوں نے کہا بدن کے تقاضے اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن روح کے اپنے تقاضے ہیں جن کے لئے ضروری ہے کہ روح کے تقاضے پورے کئے جائیں، اور کربلا معنوی اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے کی ایک درس گاہ ہے جو 61 ہجری میں رونما ہوئی تھی جو آج بھی جاری و ساری ہے.
انہوں نے کہا کہ کل حسین نے یزیدیت کا مقابلہ بندگی سے کیا تھا، کل جو معرکہ تھا حقیقت میں دیکھیں تو خود پرستی اور خدا پرستی کے درمیان تھا. انہوں نے کہا کہ آج بھی یہ ہی مرحلہ ہے ساری دنیا میں جو مسائل ہیں جو مشکلات ہیں، وہ دو بلاک ہیں جو شر اور گھرک کا بلاک ہم کہتے ہیں، یہ تو دنیا کی تقسیم ہے لیکن حقیقت میں ایک خود پرستی کا ہے اور دوسرا خدا پرستی کا ہے. ایک شخص اپنے نفس کی پرستش کرتا ہے بندگی کر رہا ہے. جبکہ دوسرا شخص یہ دیکھتا ہے کہ جس نے اسے بنایا وہ خدا اس سے کیا چاہتا ہے؟ یہ خدا پرستی ہے. اور حسین ہمیں بتاتے ہیں کہ خدا پرستی میں کیسے اپنی زندگی کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے.
کانفرنس سے آغا صابر اکبری جدی، نیظامی بالوگلانوو،آیٰرات بایشیٰو،مایٰس کوربانوو، اور ڈاکٹر زاہد علی خان نے بھی خطاب کیا جبکہ سید زاہد نقوی ، ڈاکٹر طاہرملک ،عبدالخالق راٹھ ، تصدق چیمہ گل ہائے عقیدت بارگاہ امام عالی مقام میں پیش کیا.