یوکرین کے صدر زیلنسکی اور اس ملک کی حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات پر غور کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یوکرین روس سے نہیں بلکہ ایران سے لڑ رہا ہے اور اس نے ایرانی ہتھیاروں پر اس طرح اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور اسے لے کر اس قدر واویلا مچا رکھا ہے کہ گویا ایرانی ہتھیار اگر نہ ہوتے تو اب تک یوکرین فوجی ماسکو میں داخل ہو چکے تھے!!!
تحریر: سید لیاقت علی کاظمی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ یوکرین کا کوئی اہلکار اپنے ملک میں “ایرانی ہتھیاروں” کے پائے جانے کے خطرے سے خبردار نہ کرتا ہو۔ ایک ایسا ہتھیار جس نے جنگ کی مساوات کو روس کے حق میں بدل دیا اور یورپ کو بجلی سے محروم کر دیا ہے اور یوکرین کو بحران کا شکار کر کے اس کا پورا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے اور دنیا کی خوراک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، گویا اگر یہ ہتھیار نہ ہوتا تو روس یوکرین کے ساتھ جنگ ہار چکا ہوتا اور یوکرین جیت کے نقّارے بجا رہا ہوتا لیکن کمبخت بیچ میں یہ ایرانی ہتھیار آگئے.!!
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی یوکرین کا کوئی اہلکار اپنے ملک کے میدانِ جنگ میں پیش آنے والے واقعات اور پیش رفت کے بارے میں بات کرتا ہے تو وہ عجیب و غریب بات کرتا ہے کہ ایران پر امریکی، یورپی، مغربی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے بس وہ اسی چیز کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ اب ہم نہیں جانتے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے تمام حُکّام اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایران کے خلاف پابندیاں بڑھائی جائیں؟ جبکہ یوکرین کا ایک چوتھائی سے زیادہ علاقہ اس ملک کی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے!؟ کیا یہ واقعی ایک اتفاق ہے یا کوئی ان کے ذہن میں یہ بات ڈال رہا ہے؟!
یوکرائنی حکام اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اس ملک کی فضائیہ کے ترجمان یوری اہنات کہتے ہیں: یوکرین کی فوج اب اس بات سے پریشان ہے کہ روس ایران سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل خریدے گا اور انہیں یوکرین کے خلاف استعمال کرے گا، اور یہ مسئلہ بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یوکرین کے پاس مناسب دفاعی ہتھیار نہیں ہے۔
اس یوکرینی وزیر نے اس طرح بات کی ہے جیسے روس تیسری دنیا کا کوئی ملک ہے نہ کہ کوئی سپر پاور جس کے پاس ایسے ہتھیار ہیں جن تک دنیا کے کسی اور ملک کی رسائی نہیں ہے۔ گویا اہنات عالمی رائے عامہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یوکرین کے پاس روسی میزائلوں کے خلاف صحیح دفاعی ہتھیار تو ہے، لیکن اس کے پاس ایرانی میزائلوں کے خلاف صحیح ہتھیار نہیں ہے!!!
یورپی ممالک کو بجلی کی فروخت روکنے کا جواز پیش کرتے ہوئے زیلنسکی نے ملک کے پاور پلانٹ پر روسی میزائل اور ڈرون حملے کو بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے جب کہ ہمیشہ کی طرح ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرڈالا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ ارسولا وان ڈیر لاہن سے مدد مانگنے کے لیے ملے، تب بھی وہ ایران پر مزید پابندیوں کا مطالبہ کرنا نہیں بھولے۔!
کچھ معاملات میں، یوکرائنی حکام نے اس سے بھی آگے بڑھ کر پابندیوں کے علاوہ دیگر طریقوں سے ایران سے نمٹنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثناء ایرانی حکام نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران نے جنگ کے دوران روس کو کوئی ڈرون فروخت نہیں کیا۔ بلکہ، جنگ سے پہلے، دونوں ممالک کے درمیان فوجی معاہدے کے فریم ورک کے اندر ماسکو کو محدود تعداد میں UAVs فراہم کیے گئے تھے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ زیلنسکی کے دعوؤں کا ان کی حکومت میں شروع ہونے والے ہنگامے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ محض امریکہ اور صہیونی حکومت سمیت دوسروں کے حکم پر عمل درآمد کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔کیونکہ اگر اس کی بات میں ذرہ برابر بھی سچائی ہوتی اور وہ سچ میں حقیقت کا متلاشی ہوتا تو تحقیق کیے جانے سے پیچھے نہ ہٹتا۔دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین کی وزارت خارجہ کے ترجمان اولیگ نکولینکو بڑبڑاتے نظر آتے ہیں: “تہران کو معلوم ہونا چاہیے کہ یوکرین کے خلاف روسی جرائم میں ملوث ہونے کے نتائج اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔”
یوکرائنی حکام نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات سے زیادہ ایران کے ساتھ دشمنی کے خواہاں ہیں۔ وہ دیوانہ وار ایران پر الزامات لگانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ طویل مدتی مقاصد حاصل کر سکیں جن کا یوکرین کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
زیلنسکی سمیت اس کا سبھی عملہ سب سے بہتر جانتے ہیں کہ روس کو کسی بھی ملک کے ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے اور درحقیقت اس وقت یوکرین میں جو ہو رہا ہے وہ اس ملک کے حکام کی آنکھیں بند کر کے امریکہ اور صہیونیوں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا نتیجہ ہے۔
یہ واقعی شرم کی بات ہے کہ زیلنسکی اب بھی ایک کامیڈین کی طرح ایسا شرم آور کردار ادا کر رہا ہے اور یوکرین کے اندر ہونے والے تمام مسائل اور سانحات کا الزام چند ایرانی ڈرونز پر ڈالنا چاہتا ہے، جب کہ اس کے پاس مغرب کے تمام بے حد و حساب ہتھیار موجود ہیں۔