دنیا کو افغانستان کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا “ماسکو فارمیٹ” اجلاس میں پاکستان کا موقف
ماسکو: اشتیاق ہمدانی
ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے “ماسکو فارمیٹ” کا اجلاس ہوا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ماسکو فارمیٹ اجلاس میں طالبان شریک نہیں ہیں۔ واضح رہے افغانستان کے حوالے سے ماسکو فارمیٹ اپریل 2017 میں بنایا گیا تھا۔ یہ فارمیٹ افغان میں قیام امن کے لئے دلچسپی رکھنے والے 11 ممالک کو اکٹھا کرتا ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں روس، افغانستان، چین، پاکستان، ایران، بھارت، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔ ماسکو میں ہونے والے اس اجلاس میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کو بطور مہمان مدعو کیا گیا ہے.
اس میٹنگ کے شرکاء نے جیسا کہ اس سے قبل روسی وزارت خارجہ کی سرکاری نمائندہ ماریا زاخارووا نے بتایا تھا کہ افغانستان میں فوجی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور انسانی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا. مزید برآں اس اجلاس میں شریک نمائندوں نے علاقائی سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانے کی کوششوں پر توجہ دی.
یاد رہے افغانستان کے حوالے سے ماسکو فارمیٹ کا پچھلا اجلاس اکتوبر 2021 میں ہوا تھا، جبکہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد انہوں نے بھی ان مشاورت میں حصہ لیا تھا۔ کابل کے ذرائع نے بتایا کہ رواں برس ماسکو فارمیٹ اجلاس میں طالبان کا وفد شرکت نہیں کر رہا، کیونکہ انھیں رشین فیڈریشن کی طرف سے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔
تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ رشین فیڈریشن طالبان کے نمائندوں کے ساتھ باقاعدہ روابط برقرار رکھے ہوئے ہے، ماسکو فارمیٹ کے اجلاس کے شرکاء افغانستان کی سیاسی قوتوں کو اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرے گا۔
اس اجلاس کے دوران افغانستان کے لئے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں گزشتہ 20 برس سے عدم استحکام ہے. ان کا کہنا تھا افغانستان گزشتہ 4 دہائیوں سے جنگ کا شکار رہا ہے، تاہم اب جنگ ختم ہو چکی ہے اور افغانستان کے لئے تعمیر نو لیے نئے مواقے ہیں. محمد صادق خان کا کہنا تھا کہ ہمیں افغانستان کا ساتھ دینا ہوگا. افغانستان کے ہمسائے اور دوست ممالک کو افغان عوام کے لیے کھڑے ہونا ہوگا. ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو افغانستان میں بنیادی انسانی حقوق کا احترم کرنا ہوگا اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہوگا. انہوں نے کہا کہ افغانستان میں گزشتہ 16 ماہ کا خلاصہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ سلامتی کی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہوں گے.
پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا کہ اس وقت لاکھوں افغان شہریوں کو فوری طور پر انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے جس میں خوراک، ادویات، اور بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا شامل ہیں. انہوں نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتباہ کیا ہے کہ آدھی سے زائد افغان آبادی کو رواں سال خوراک کی کمی کا سامنا ہے. محمد صادق نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو افغان حکام کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، خاص طور پر جہاں عبوری افغان حکومت نے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان بین الاقوامی بینکنگ سسٹم سے کٹا ہوا ہے اور اسے لیکویڈیٹی کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
محمد صادق کے مطابق افغانستان کے اربوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، جس وجہ سے افغانستان کی عوام اپنے حقوق سے مستفید ہونے سے محروم ہے.
افغانستان کے لیے روسی فیڈریشن کے صدر کے خصوصی نمائندے، وزارت خارجہ میں ایشیا کے دوسرے ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ضمیر کابلوف نے افغانستان کے بارے میں ماسکو فارمیٹ کے مشاورتی اجلاس کے بعد صحافیوں کو طالبان کے بیانات پر روس کے ردعمل کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ فارمیٹ ہمارے لیے اہم تھا جس میں اس خطے کے اہم ممالک اکٹھے ہوئے اور افغانستان کے مسائل پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ملک یا کسی حکومت کے یرغمال نہیں ہیں۔ یا ایسا نہیں ہے کہ ان کی شرکت کے بغیر ماسکو فارمیٹ میٹنگ نہیں ہوسکتی.
روسی عہدیدار نے کہا کہ ہم امریکہ اور اس کے شراکت داروں پرزور دیتے ہیں کہ وہ افغانستان کے اثاثوں کو غیر مشروط طور پر بحال کریں جس سے افغانستان ایک آزاد مالیاتی اور اقتصادی پالیسی چلانے کے قابل ہوسکے.