روسی ہم منصب سے میرا فون پر رابطہ نہیں ہوسکا، امریکی آرمی چیف کا شکوہ
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے پولینڈ میں ہونے والے میزائل حملے کے بعد اپنے روسی ہم منصب جنرل ویلری گیراسیموف سے بات کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے. اطلاعات کے مطابق سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ میرے دفتر کے سٹاف نے میری روسی ہم منصب جنرل گیراسیموف سے فون پر بات کروانے کی مسلسل کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے. یاد رہے منگل کو یوکرین کی سرحد کے قریب پولینڈ کے ایک گاؤں پر میزائل لگنے اور دو مقامی افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی جنرل مارک ملی نے اپنے روسی ہم منصب سے رابطے کی کوشش کی تاہم ان کا رابطہ نہ ہوسکا. یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ روس نے جان بوجھ کر کیا ہے اور انہوں نے نیٹو پر زور دیا کہ وہ اس کے جواب میں اپنے اجتماعی دفاعی انتظامات کو استعمال کرے اور روس کو جواب دے. دوسری جانب مغربی ممالک نے اندازہ لگایا کہ یہ پراجیکٹائل غالباً یوکرائنی طیارہ شکن میزائل تھا جو بھٹک گیا۔ لیکن یوکرین کے رہنما نے اس دعوے کو مسترد کیا کہ اس میزائل کو یوکرین کی افواج نے فائر کیا تھا۔ میڈیا بریفنگ کے دوران دونوں امریکی دفاعی حکام نے اختلاف رائے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے یوکرین کے چیف آف ڈیفنس، جنرل ویلری زلوزنی کو اس میزائل حملے کی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔ امریکی جنرل ملی نے کہا کہ انہوں نے یوکرینی جنرل سے بھی بات کی، لیکن انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں کیا بتایا گیا تھا۔ روسی فوج نے پولینڈ میں ہونے والے اس میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ میزائل کے ملبے کی تصاویر سے واضح طور پر اس کی شناخت ہوئی ہے جس سے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ یوکرینی میزائل تھا. روسی وزارت خارجہ نے کیف پر جھوٹے بہانے سے مزید مغربی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات سے یوکرین کی “اشتعال انگیزی” بے نقاب ہو جائے گی۔