باکو کیساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے تیار ہے، آرمینیا
ایریوان (انٹرنیشنل ڈیسک)
روسی خبر رساں ایجنسی “تاس” نے خبر دی ہے کہ آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیان نے (بدھ کو) اعلان کیا ہے کہ وہ اسپین کے شہر “گریناڈا” جانا چاہ رہے تھے، جو کل جمہوریہ آذربائیجان، آرمینیا، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے ایریوان اور باکو کی صلح کے حوالے سے ہونے والے پانچ طرفہ اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ اس اجلاس میں آرمینیا کے وزیراعظم، جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن یہ افسوسناک ہے کہ علیئیف نے آخری لمحات میں اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آخری لمحے تک اور آج بھی گریناڈا کے سفر کی تصدیق کی ہے۔ میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم تعمیری سوچ کے ساتھ پرامید تھے، کیونکہ ہمیں سمجھتے تھے کہ ایک اہم دستاویز پر دستخط کرنے کا موقع فراہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پتہ چلا کہ ہماری پہلے سے طے شدہ میٹنگ ہماری کسی غلطی کے بغیر اب نہیں ہو رہی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ میز پر موجود تصوراتی دستاویز پر صحیح وقت پر دستخط کیے جائیں گے۔ ان امور کا ذکر کرتے ہوئے آرمینیا کے وزیراعظم نے مزید کہا کہ میں اس دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہوں۔ افسوس ہے کہ مجھے کل اتنے اہم فیصلے کا اعلان کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ پشینیان کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب روسی خبر رساں ایجنسی “ریانووسکی” نے آج اپنی ایک رپورٹ بتایا ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے 5 اکتوبر کو اسپین کے شہر گراناڈا میں ہونے والے اجلاس، جس میں آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان، فرانس کے صدور، جرمنی اور یورپی یونین کے نمائندوں اور دیگر اعلیٰ حکام نے شریک ہونا تھا، اس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کے صدر پانچ فریقی اجلاس آرمینیا، آذربائیجان، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین میں شرکت نہیں کریں گے، جس کا شیڈول ٥ اکتوبر کو گریناڈا، سپین میں طے کیا گیا تھا۔ جمہوریہ آذربائیجان کے صدر کے انکار کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ باکو نے اس اجلاس میں ترکی کی شرکت کی تجویز پیش کی اور اس پر اصرار بھی کیا، لیکن فرانس اور جرمنی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور اس سلسلے میں کوئی خاص گرم جوشی بھی نہیں دکھائی۔ ایریوان اور باکو کے درمیان کشیدگی کا نیا دور اسوقت شروع ہوا، جب جمہوریہ آذربائیجان نے حال ہی میں نگورنو کاراباخ میں ایک برق رفتار آپریشن شروع کیا، جسے اس نے “مقامی نوعیت کے انسداد دہشت گردی آپریشن” کے طور پر بیان کیا، جس کا مقصد اپنے آئین کو بحال کرنا ہے۔
ایریوان نے جمہوریہ آذربائیجان کی اس کارروائی کو حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کاراباخ میں اس کا کوئی فوجی یونٹ موجود نہیں ہے۔ اس کے ایک دن بعد، روسی امن دستوں کی ثالثی سے جنگ بندی کے لیے ایک معاہدہ طے پایا، جس میں جنگ بندی کی شرائط میں آرمینیائی افواج کو غیر مسلح کرنا اور نگورنو کاراباخ سے بھاری ساز و سامان کا انخلا شامل ہے۔ یہ دونوں پڑوسی ممالک اب تک دو بار ایک دوسرے سے جنگ کرچکے ہیں اور ہر ایک کو ان جنگوں میں کافی جانی نقصان ہوا ہے۔ باکو اور ایریوان کے درمیان امن مذاکرات کا ابھی تک کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا ہے۔
Thanks for your marvelous posting! I certainly enjoyed reading it,
you may be a great author.I will always bookmark your blog and definitely will
come back in the future. I want to encourage you to definitely continue your great posts, have a nice afternoon!