ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے جاری اپنی رپورٹ میں کہا کہ چین میں شی جن پنگ کی حکومت ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ’سائنسائز‘ (چینی رنگ میں ڈھالنے) کے لیے شمالی وسطیٰ صوبوں میں مساجد کو مسمار کر رہی ہے۔
عالمی تنظیم نے سیٹلائٹ امیجز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چینی حکام نے ننگسیا اور گانسو صوبوں میں مسلمانوں کے لیے اسلام پر عمل کو محدود کرنے کی حکومتی کوششوں کے سلسلے میں مساجد کو مسمار کیا، انہیں بند کیا، ان کے اجازت نامے منسوخ کیے اور ان کو غیر مذہبی استعمال کے لیے تبدیل کر دیا۔
’دا موسک کانسولیڈیشن‘ پالیسی کا حوالہ پہلی بار اپریل 2018 کی چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی دستاویز میں اسلام کو ’زیادہ چینی رنگ‘ میں ڈھالنے کے لیے کثیر الجہتی قومی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلم برادریوں کو بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
چین کے مسلم اکثریتی شمال مغربی علاقے سنکیانگ کے بعد ننگسیا اور گانسو صوبوں میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد آباد ہے۔
صدر شی جن پنگ کی قیادت والی چینی حکومت پر الزام ہے کہ وہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اویغور اور ہوئی نسل کے مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر بدسلوکی اور غیر قانونی حراستوں کے ذریعے مقدمات چلا رہی ہے۔
بیجنگ نے معمول کے مطابق ان ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے الزامات کی تردید کی اور اسے ’صدی کا جھوٹ‘ قرار دیا۔ چین مبینہ طور پر غیر ملکی مذہبی آثار کے ’ثبوت کو ہٹانے‘ کے لیے گنبد اور مینار گرا کر ہزاروں مساجد میں تعمیراتی تبدیلیاں کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق دستاویز میں کہا گیا کہ ’تعمیرات سے زیادہ (مساجد کو) مسمار کیا جانا چاہیے۔‘
لیاوقیاؤ نامی چینی گاؤں میں ہوئی نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی آبادی یہاں کی کل آبادی کا 55 فیصد ہے، اور 2013 میں اسلامی فن تعمیر اور گول گنبد والی چھ مساجد موجود تھیں۔
تاہم سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری اور اگست 2020 کے درمیان تین مساجد سے ان مسلم فن تعمیر کو ہٹا دیا گیا اور مساجد کے مرکزی ہال مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔