ہومانٹرنیشنلاگلا نشانہ کون ہو گا؟

اگلا نشانہ کون ہو گا؟

Ishtiaq Hamdani
Ishtiaq Hamdani
اشتیاق ہمدانی.
ماسکو نامہ .

مئی کا مہینہ جو دوسری جنگ عظیم میں سرخ فوج کی کامیابی کے بعد انسانی تاریخ میں گزشتہ 89 سال سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، لیکن ایک مدت سے مغربی قوتیں سرخ فتح کی یہ یاد مٹانے کے لئے برسرپیکار ہیں. پہلے تو انھوں نے روس پر سفارتی اور سیاسی دباو سے کوشش کی، لیکن ناکام رہے.پھر انہوں نے روس کے اتحادی خصوصا مشرق کے واسطہ مغربی ریاستوں اور وسط ایشیائی ریاستوں میں اس دن کے خلاف نفرت اور تاریخی یادگار مسخ کرنے کا منصوبہ شروع کیا کسی حد تک وہ پولینڈ ،بالٹک اور یوکرین میں تاریخی یادگاروں کو مسمار کرنے میں کامیاب رہے لیکن کئی دوسری ریاستیں جنہوں نے اس جنگ عظیم میں فوج کے ساتھ سرخ فوج کے ساتھ شانہ بشانہ نازی قوتوں کو شکست دی تھی ان پر ان کا اثر رسوخ نہ چل سکا.اس ہی طرح روس کے ہمسائے اور قریبی دوست ملک قازقستان میں “بلڈی جنوری” کے نام سے پہچانے جانے والے دھنگے اور فسادات کا ایک سلسلہ 2 جنوری 2022 کو اچانک شروع ہوا۔ جس کے بعد روس نے کولیکٹو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن کے معاہدے کے تحت قازقستان کی درخواست پر روسی فوج قازقستان بھیجی. اور حالات کو کنٹرول کیا .
Russia holds Victory Day Parade on Moscow
اب انہوں نے ایک نئے طریقے سے مئی میں ہونے والے واقعات کو منظم طریقے سے آگے بڑھایا ہے جس سے نہ صرف نو مئی کی یاد بلکہ مئی میں اتنے اہم واقعات ہو چکے ہیں جس سے دوسری جنگ عظیم کی کامیابی کا دن ان کے خیال میں اپنی اہمیت کھو دے گا حالانکہ ایسا روس کبھی نہیں ہونے دے گا مثال کے طور پہ پچھلے سال 2023 میں پاکستان میں اپوزیشن قوتوں نے ملک کے فوجی املاک پر حملہ کر دیا جس سے پاکستان اور ریجن میں نو مئی کی تاریخ بالکل بدل گئی اس سال بھی نو مئی کو پاکستان میں متعددمظاہرے اور جلسے جلوس ہوئے اسی طرح اس سال 15 مئی کو سلواکیہ کے وزیراعظم پر حملہ ہوا یہ واقعات اتنی برابری کے ساتھ ہوئے کہ یہ ایک مکمل سازش لگتی ہے ، ایک سازش تو یہ ہے کہ اس سے دوسری جنگ عظیم کے نازی فاشسٹوں کی شکست کو چھپانا اور ان کے ظلم پر پردہ ڈالنا ہے، اور دوسری یوکرین میں اپنی شکست کو چھپانے کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ باور کروا دینا ہے کہ خواہ ہم میدان جنگ میں ہار جائیں، لیکن لومڑی کی چالیں چل کر ہم جیت سکتے ہیں. لومٹری کی یہ چالیں ہمیں اس مئی 2024 کے میں کرغزستان، سلواکیہ اور ایران میں ہونے والے واقعات سےعیاں ہیں.

students in Kyrgyzstan

کرغزستان-
اس سال مئی میں ہونے والےواقعات میں کرغستان میں غیر ملکی طلبہ اور خاص طور پر پاکستانی طلبہ کو جس تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس تشدد کا عنصر محض پاکستانی یا غیر ملکی طلبہ نہیں ہے بلکہ یہ کرغز صدر کے خلاف ایک ایسی سازش ہے کہ جو ان کی حکومت کو ناکام بنانے اور حکومت کے خلاف عوام کو ٹکرانے کے لیے غیر ملکی طلبہ کا انتخاب کیا گیا.
اب اگر صدر مظاہرین کےخلاف مقدمات بناتے ہیں تو ملک کے اندرسیاسی عدم استحکام اور صدر کے خلاف تحریک کا خطرہ ہے دوسری طرف اگر صدر ان مظاہرین کو اگنور کرتے ہیں عالمی سطح پہ صدر کے خلاف بھرپور ایکشن کا امکان ہے . کرغستان کے صدر، صدیر جاپروف، نے حال ہی میں روس کے ساتھ اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس کی مثالیں روس اور کرغستان کے درمیان ایک مشترکہ فضائی دفاعی نظام کی تخلیق اور روسی فوجی تنصیبات کی ترقی شامل ہیں۔

11 اکتوبر 2023 میں، کرغستان کی پارلیمنٹ نے روس کے ساتھ ایک مشترکہ فضائی دفاعی نظام کی تخلیق کے لئے ایک معاہدہ منظور کیا۔ اس معاہدے کے تحت، کرغستان میں موجود کانت روسی فوجی اڈے پر پانچ ہیکٹر زمین کا استعمال کیا جائے گا​ ۔ اس نظام کا مقصد دونوں ممالک کی فضائی حدود کی حفاظت کو مضبوط بنانا ہے اور یہ معاہدہ پانچ سال کے لئے نافذ العمل ہوگا۔

اس کے علاوہ، 8 مئی 2023 میں ماسکو میں منعقدہ ملاقات کے دوران، صدر جاپروف اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کرغستان میں روسی فوجی تنصیبات کو مزید ترقی دینے پر اتفاق کیا۔ اس ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک فوجی اور تکنیکی تعاون کو بڑھانے کے لئے پرعزم ہیں اور اس تعاون سے اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو بھی فروغ ملے گا​ -یہ اقدامات کرغستان کے روس کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جبکہ کرغستان اور روس دونوں ہی ماسکو کی زیر قیادت اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم (CSTO) کے رکن ہیں۔ اس تنظیم کے تحت، دونوں ممالک ایک دوسرے کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے تعاون کرتے ہیں۔

ان اتحادوں کا مقصد نہ صرف موجودہ فوجی طاقت کو بڑھانا ہے بلکہ مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لئے مشترکہ صلاحیتوں کو بھی مضبوط بنانا ہے۔ یہ اقدامات کرغستان کی خارجہ پالیسی میں روس کے ساتھ قریبی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ وسطی ایشیاء میں استحکام اور سکیورٹی کے لئے اہم ہیں۔اس ساری صورتحال میں کرغز صدر کسی طور پر بھی مغربی قوتوں کے لئے موزون نہیں ہیں. اور آج نہیں تو کل مغرب ایک بار پھر کرغزستان میں خون کی کوئی نئی ہولی کھیل سکتا ہے، کیونکہ طلبہ فسادات سے مغرب کو مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوسکے.

کرغستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی طلبا کے ساتھ ہونے والے فسادات نے شدید تشویش پیدا کی ہے۔ یہ فسادات مبینہ طور پر ایک واقعے کے بعد شروع ہوئے جس میں مصری طلبا کے ساتھ مقامی لوگوں کی جھڑپ ہوئی۔ اس واقعے کے بعد پاکستانی اور بھارتی طلبا پر حملے کیے گئے، جس میں کئی طلبا زخمی ہوئے​ ​۔ مظاہرین نے رات کے وقت ہاسٹلز میں گھس کر پاکستانی اور دیگر غیر ملکی طلبا کو نشانہ بنایا۔ کئی ہاسٹلز اور رہائشی عمارات میں توڑ پھوڑ کی گئی اور طلبا کو زخمی کیا گیا۔ متاثرین میں سے کئی طلبا کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی اور کچھ طلبا کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا​۔لیکن پاکستان کو جان بوجھ کر ہائی لائٹ کیا گیا ، کیونکہ پاکستان کے روس اور ایران کے ساتھ بڑھتے تعلقات پر امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایک وارننگ کال بھی ہوسکتی ہے.

Slovakia prime minister attack
سلوواکیہ-
سلوواکیہ کے وزیراعظم رابرٹ فیکو نے یوکرین کی صورتحال پر نیٹو سے اپنے اختلافات کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ سلوواکیہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرے گا، کیونکہ ان کے مطابق یہ عالمی جنگ کی شروعات کا باعث بن سکتا ہے۔ فیکو نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں یہ موقف واضح کیا تھا کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روس کے مفادات کے خلاف ہوگی اور اس سے مزید کشیدگی بڑھے گی۔ فیکو نے سلوواکیہ کی جانب سے یوکرین کو فوجی امداد فراہم نکرنے سے بھی انکار کیا تھا. ا اور انھوں نے یوکرین کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کو روکنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ اقدام ان کی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے جو ماسکو کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو ترجیح دیتی ہے۔

سلوواکیہ کی حکومت نے نیٹو اور یورپی یونین کے اجلاسوں میں بھی ان خیالات کا اظہار کھل کر کیا تھا. اور فیکو ننے تسلیم کیا تھا کہ یوکرین کی مغربی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے اور مزید فوجی مداخلت سے معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ یہ اختلافات سلوواکیہ اور نیٹو کے دیگر رکن ممالک کے درمیان تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں، خاص طور پر ان ممالک کے ساتھ جو یوکرین کی حمایت میں مضبوط موقف رکھتے ہیں۔ سلوواکیہ کا یہ رویہ روس اور مغرب کے درمیان جاری تناؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے اور یوکرین کے مستقبل کے حوالے سے مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔

یقینی طور پر رابرٹ فیکو کا حقیقت پسندانہ موقف ان کے لئے ازیت کا باعث بنا . 15مئی کو رابرٹ فیکو پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔ یہ حملہ سلوواکیہ کے شہر ہینڈلووا میں ایک حکومتی اجلاس کے بعد ہوا جب فیکو پر کئی گولیاں چلائی گئیں، جس سے وہ سر اور سینے پر زخمی ہوئے۔ انہیں فوری طور پر بانسکا بایسٹرکا کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا تھا.
حملے کے بعد سلوواکیہ کی صدر زوزانا کاپوٹووا نے اس حملے کو “جمہوریت پر حملہ” قرار دیا اور یہ واقعہ سلوواکیہ میں سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید ردعمل کا باعث بنا۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لیئن نے اس حملے کو “نقاہت انگیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی تشدد کی کارروائیاں جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان اور چیک ریپبلک کے وزیراعظم پیٹر فیالا سمیت متعدد عالمی رہنماؤں نے بھی فیکو کی صحتیابی کے لیے دعا کی اور اس حملے کی مذمت کی​۔حملے کے بعد پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن حملے کے محرکات ابھی تک واضح نہیں ہوئے ہیں۔ سلوواکیہ میں اس حملے کے بعد سیکیورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں اور حکومتی عہدیداران نے مزید تحقیقات اور سیکیورٹی کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے​ ​۔

فیکو، جو اینٹی-امریکی پالیسیوں کے لیے جانے جاتے ہیں، نے حال ہی میں یوکرین کو دی جانے والی امداد کو روک دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ نیٹو ممالک کے لئے متنازعہ شخصیت بن گئے تھے​۔سلواکیہ کے وزیر اعظم پر حالیہ حملے نے ملکی سیاست اور عوامی ردعمل میں ہلچل مچادی ہے- سلوواکیہ کے وزیراعظم پر حملہ یہ اس مغربی سازش کی دوسری کڑی تھی .

Iranian President Ebrahim Raisi
ایران-
19 مئی 2024 کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا، جس میں صدر رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، اور دیگر اعلیٰ حکام شہید ہوگئے۔ یہ حادثہ ایران کے صوبہ مشرقی آذربائیجان کے علاقے جولفا کے قریب پیش آیا، جب ہیلی کاپٹر مصنوعی خراب موسم اور دھند کے باعث پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا.

یہ المناک واقعہ ایران کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں غم و غصے کا باعث بنا۔ حادثے کے فوراً بعد، ایران کی مسلح افواج اور ہلال احمر کی ٹیموں نے بڑے پیمانے پر سرچ اور ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ تاہم، مشکل موسمی حالات کے باعث امدادی ٹیموں کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بالآخر، حادثے کے مقام سے صدر رئیسی اور دیگر افراد کی لاشیں برآمد ہو گئیں.

صدر ابراہیم رئیسی کی موت نے ایران کے عوام اور بین الاقوامی برادری کو شدید صدمے سے دوچار کیا ہے۔ حادثے کی تحقیقات جاری ہیں، اور ایرانی حکام نے حادثے کے مختلف ممکنہ اسباب کی جانچ شروع کردی ہے۔ وزیر داخلہ احمد وحیدی نے کہا کہ ابھی تک کسی سازش کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، لیکن خراب موسم اور تکنیکی خرابی کو ممکنہ وجوہات میں شامل کیا جا رہا ہے.

صدر رئیسی کی موت ایران کے لیے ایک بڑا سیاسی نقصان ہے۔ وہ 2021 سے ایران کے صدر تھے اور اپنے دور صدارت میں متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرتے رہے۔ ان کی قیادت میں ایران نے بین الاقوامی تعلقات میں مختلف نوعیت کی پالیسیوں کو اپنایا اور داخلی سطح پر اقتصادی اور سماجی مسائل کے حل کی کوشش کی.
حادثے کے بعد ایران کے نائب صدر محمد مخبر دیگر حکومتی اکابرین کے ہمراہ تبریز روانہ ہو گئے تاکہ حادثے کی تحقیقات اور امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر سکیں ​ایران کے مختلف شہروں میں صدر رئیسی کی یاد میں دعائیں اور تعزیتی تقریبات منعقد کی گئیں، جہاں عوام نے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کی.

Russian President Vladimir Putin with Iranian President Ebrahim Raisi
اس حادثے نے نہ صرف ایران بلکہ عالمی برادری کو بھی گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے۔ ایرانی عوام اور حکومتی عہدیداروں نے اس المناک واقعے کے بعد صدر رئیسی اور دیگر اعلیٰ حکام کے لیے دعائیں کیں اور ان کی خدمات کو یاد کیا۔ حادثے کی تحقیقات مکمل ہونے تک مختلف قیاس آرائیاں جاری رہیں گی، لیکن یہ واقعہ ایران کی تاریخ میں ایک المناک باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حادثے کے بعد ایرانی حکام نے کہا کہ وہ مزید معلومات کے انتظار میں ہیں- یقیننا ایران نے ایک بڑی قیمت ادا کی ہے. جس وقت یہ حادثہ پیش آیا سب سے پہلے ٹھیک سات بج کے 45 منٹ شام اسرائیل کے میڈیا پہ صدر رئیسی کی ڈیتھ کی خبر کو اناؤنس کر دیا گیا اس خبرسےسب سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو آگاہ تھے . اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کیبنٹ کے مشورے سے اس کو ریلیز کروایا -صبح پانچ بج کے 40 منٹ تک دنیا میں ایک سوال اٹھا اسی میڈیا کے اوپر کہ جب ایران نے اس کو فائنڈنگ نہیں دی تو میں کیسے پتہ وہ شہید ہو گئے؟ پھر پانچ بج کے 40 منٹ پہ صبح کے وقت میں انہوں نے تمام سائیڈز پر سے یہ خبر ڈیلیٹ کر دی ہے اور 10 بج کے 15 منٹ پر صبح ایرانی فائنڈنگ آنے کے بعد دوبارہ انہوں نے نشر کی اور اس میں ایرانی ذرائع کا ذکر کیا –

ایرانی صدر آذربائیجان سے واپس ایران جا رہے تھے. آذربائیجان کی اکثریت کی ابادی شیعہ مسلم ہے لیکن وہاں پر موساد کا منظم کنٹرول ہے. ہم کہہ سکتے ہیں کہ آذربائیجان ان کے میکنزم کا دوسرا نام ہے جو ایران کی سرحد کے اوپر برپا کیا گیا ہے. اور وہاں پہ اڈے بنائے گئے وہاں سے مواصلات کا نظام کنٹرول کیا جاتا ہے. شنید یہ بھی ہے کہ ایرانی صدر کو آذربائیجان میں ایک گھڑی کا تحفہ دیا گیا جس کے اندر ممکنہ طور ریڈار کو کنٹرول اور ہیلی کاپٹر کے مواصلات نظام کو جام کرنے کی صلاحیت موجود تھی.

جب ہیلی کاپٹر کی پرواز ہوئی تو 100 کلومیٹر کے ریڈیس پہ دونوں آذربائجان کا بھی اور ایران کا بھی ریڈار کام کر رہے تھے 30 کلومیٹر کے فاصلے پہ اندر آنے کے ساتھ ہی وہاں پر دو ہیلی کاپٹر اور ان میں دونوں پائلٹ بھی زندہ بچ گئے اور دونوں کے انٹرویو بھی لائیو نشر ہوئے. اس حادثے سے قبل دوران پرواز سب سے آگے ایران کے صدر کا ہیلی کاپٹر تھا، جبکہ دوسرے ہیلی کاپٹر جس کے انچارج کیپٹن غلام حسین اسماعیل تھے نے اس حوالے سے کچھ انکشافات کئے ہیں.

ان کے مطابق ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر سب سے آگے تھا اور آسمان میں مطلع صاف تھا، کوئی پرابلم نہیں تھی دور دور تک کوئی بادل نہیں تھا لیکن اچانک ایسا ناقابل یقین کیا ہوا کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے سامنے ایک بادل آگیا. ہم نے ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر بادل کی طرف داخل ہوا ہم 500 میٹر پیچھے تھے تو ہم نے بادل کے اوپر سے پرواز کو لے جانا بہتر سمجھا جب ہم بادلوں کی پرواز کراس کر گئے تو اصولا صدر کا ہیلی کاپٹر آگے ہونا چاہیے تھا جو نہیں تھا جس کے بعد ڈیڑھ منٹ پہلے کی کمیونیکیشن میں ہمارا رابطہ تھا اور ڈیڑھ منٹ ہمارا رابطہ نہیں رہا.

اب ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا رابطہ بادل میں داخل ہونے کے بعد منقطع ہوا، اب جو کچھ بھی تھا وہ بدل میں ہی تھا، دنیا بھر میں طیارے بادلوں میں سفر کرتے ہیں مگر کسی کا بھی رابطہ منقطع نہیں ہوتا. یہاں یہ بات قبل غور ہے کہ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر اس لئے رابطے سے منقطع ہوگیا کہ وہ بادلوں میں چلا گیا اور باقی دو ہیلی کاپٹر اس لئے رابطے میں رہے کہ انہوں نے بادلوں میں سفر نہیں کیا. ایسی اطلاعات ہیں کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا مواصلاتی نظام ایک بادل میں داخل ہوتے ہی ختم ہوگیا. ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے بادل میں جانے سے اس کا مواصلاتی نظام، سب جام ہوگیا جس کی وجہ سے ہیلی کاپٹر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر جا گرا.

اس حادثے میں ایک شخص دو گھنٹے کے لیے زندہ بچ گئے ان کا نام تھا ایت اللہ محمد علی ال حاشر جو امام جمعہ تبریز بھی تھے، جن کا صدارتی محل میں رابطہ ہوا. اس حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد جب فون کیا گیا ان کے نمبر پہ تو وہ شدید زخمی حالت میں انہوں نے 16 سے 17 منٹ گفتگو کر کے تمام حالات بتائے. جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ دور دور تک کچھ نہیں تھا اچانک بادلوں کا ٹکڑایا جس کے بعد سب کچھ بشمول سارے شیشے دھندلے ہوگئے اور ہمیں کچھ نہیں سمجھ آیا کہ پھر ہمارے ساتھ کیا ہوا. یہ اطلاعات انہوں نے صدارتی آفس پہنچا دیں اور اسی فائنڈنگ پہ ڈے فرسٹ سے ایرانین گورنمنٹ رشین اور چائنیز گورنمنٹ نے خلا سے اس کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا.
Iran President
یہ فائنڈنگ اختتامی مراحل میں داخل ہو چکی ہیں، اگلے اٹھ سے دس دن میں یہ فائنڈنگ پوری دنیا کے سامنے آئے گی اور دنیا کو یہ پتہ چلے گا کہ جدید نظام کے تحت ہیلی کاپٹر کو بےقابو کر کے کسی بھی اعلی شخصیت کو موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے.

دنیا کے بگڑتے حالات نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مختلف ممالک میں سیاسی، معاشی، اور سماجی بحرانوں نے بین الاقوامی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر، یوکرین میں جاری جنگ نے یورپ کی سلامتی اور عالمی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس جنگ نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر توانائی اور غذائی قلت کو بھی جنم دیا ہے​ ​۔ اس جنگ کا زمہ دار اور بنیادی مہرہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں.

امریکہ ہی کی پشت پناہی میں اسرائیل نےخون کے دریا بہا کر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے . مشرق وسطیٰ میں بھی تنازعات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑھتے ہوئے تشدد نے علاقے میں امن کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ایشیا میں امریکہ تائیوان کو استمعال کرتے ہوئے ، چین اور تائیوان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ہوا دے کر بحر الکاہل میں ممکنہ تنازعے کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں نے تائیوان کے ساتھ ساتھ جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اتحادی ممالک کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی طاقتوں کے درمیان ممکنہ جنگ کے خدشات کو بھی جنم دے رہی ہے.

عالمی معیشت بھی مشکلات کا شکار ہے۔ کووڈ-19 کی وبا کے بعد بحالی کے عمل میں سست روی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور بے روزگاری نے کئی ممالک کو اقتصادی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر غربت اور بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے سماجی بے چینی اور مظاہروں کا سلسلہ بڑھ رہا ہے.

ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک بڑا چیلنج بن کر ابھر رہی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے، شدید موسمی حالات، اور قدرتی آفات نے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کی نسلوں کو ایک محفوظ اور مستحکم دنیا فراہم کی جا سکے.​

ان تمام مسائل کے باوجود، بین الاقوامی تعاون اور مذاکرات کے ذریعے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ عالمی برادری کو مل کر ان بحرانوں کا حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ ایک مستحکم اور پرامن دنیا کا خواب حقیقت بن سکے۔امریکہ نے حالیہ برسوں میں ایشیائی خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے کئی نئی حکمت عملیاں اپنائی ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی “انڈو-پیسفک اسٹریٹیجی” اس خطے میں امریکہ کی موجودگی اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی ایک اہم کوشش ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت، امریکہ نے جاپان، بھارت، آسٹریلیا، اور دیگر علاقائی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون کو فروغ دیا ہے تاکہ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکے​ ​۔


ایک طرف بائیڈن انتظامیہ نے چین کے ساتھ معاشی، دفاعی، اور سفارتی تعلقات میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ کو کم کرنے اور تعاون بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے کہ فوجی مذاکرات کا دوبارہ آغاز اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنے کا عہد ہے دوسری طرف تائیوان کو دوسرا یوکرین بنانے کی تیاری دوغلے پن کا ثبوت ہے​ ​۔

موجودہ ساری صورتحال کے پیش نظر ایک ایسا خوف کا جمود طاری ہو گیا تھا، امریکی پالیسوں کے مخالف ممالک اس سوچ میں تھے کہ اگلا نشانہ کون ہوگا ؟ یوں لگتا تھا کہ صدر پوتن یا چین کے صدر شی جن پنگ اب کھبی غیر ملکی دورے پر نہ جائیں، لیکن اس جمود اور خوف کی فضا کو جس ہیروےنے توڑا اسے دنیا صدر پوتن کے نام سے جانتی ہے، 27 مئی کو صدر پوتن نے ازبکستان جاکر امریکی امیدیں خاک میں ملا دیں. ممکن ہے بائیڈن ، پینٹا گون ، موساد اگلے نشانہ کو مارک کر چکے ہوں ، لیکن ایرانی صدر کے خون سے دنیا ایک ایسی خوشبو سے مہطر ہوئی ہے جس سے اب سامراجی قوتوں کو اپنے کئے کی سزا ملنے کی قوی امید ہے. اور سامراجی قوتیں اگلا نشانہ اپنی ہی عوام کا بنیں گی.

روسی صدر ولادیمیر پوتن پانچویں مدت کے لیے منتخب ہونے کے دو ہفتے بعد سرکاری دورے پر ازبکستان پہنچ گئے- چین اور بیلاروس کے دوروں کے بعد پوتن کا یہ تیسرا بیرون ملک دورہ ہے۔ولادیمیر پوتن جن ممالک کا آزادانہ دورہ کر سکیں گے ان کی فہرست اتنی طویل نہیں ہے کیونکہ گزشتہ سال مارچ میں دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے یوکرین میں جنگی جرائم کے شبے میں روسی صدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے 26-27 مئی کو ازبکستان میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنا تیسرا غیر ملکی دورہ کیا۔ اسے، چین کے پہلے دورے کی طرح، سب سے اعلیٰ درجہ دیا گیا تھا – ریاست، جو انتہائی پختہ پروٹوکول فراہم کرتی ہے، دوسرا دورہ، بیلاروس کا سرکاری تھا۔

ہوائی اڈے سے راستے میں سڑک کے دونوں کناروں پر روسی جھنڈے دیکھے جا سکتے تھے، کئی بڑے بینرز نمایاں تھے جن پر “روس کے صدر ولادیمیر پوتن” کے لئے اسقبالیہ کلمات درج تھے ۔ ” ان میں سے کچھ کو، مذاکرات کے اختتام کے بعد، صدور شوکت مرزیوئیف اور پوتن کی مشترکہ تصاویر سے تبدیل کر دیا گیا۔

Presidents of Russia and Uzbekistan Vladimir Putin and Shavkat Mirziyoyev

صدر ولادیمیر پوتن کا ازبکستان کا دورہ اس کی شکل میں روسی صدر کے بیلاروس کے دورے کی یاد تازہ کرتا تھا۔ وہ 26 مئی کی شام کو ملک میں پہنچے اور اس دن سرکاری ایجنڈے میں صرف نیو ازبکستان پارک کا دورہ شامل تھا، جسے تین سال قبل آزادی کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر کھولا گیا تھا۔ آنے والا وقت امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لئے اس لئے بھی کڑا ہوگا ، کیونکہ دنیا کے سامنے امریکی ، اسرائیلی اور یورپی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کھل کر عیاں ہو چکے ہیں. اور خود یورپی عوام اپنےحکمرانوں کی امریکہ نواز پالیساں اور امریکہ کی اشاروں پر ناچنے کےڈرامے سے بیزار ہو چکی ہے.

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل