5 اگست 2019 کا دن مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ آج سے 5 سال قبل اسی دن بھارتی حکومت نے ایک غیر قانونی اور ظالمانہ اقدام کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ آرٹیکل 370، جو کشمیر کو خصوصی خود مختاری فراہم کرتا تھا، کو ختم کر کے بھارت نے نہ صرف کشمیری عوام کے حقوق کو پامال کیا بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی کی۔ یہ اقدام عالمی برادری کی جانب سے شدید مذمت کا باعث بنا ہے۔
آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا ایک خصوصی حصہ تھا جو جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختاری فراہم کرتا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت، ریاست جموں و کشمیر کو اپنے آئین کی تشکیل اور قوانین بنانے کا حق حاصل تھا۔ بھارت کی مرکزی حکومت کو ریاست کے دفاع، خارجی امور اور مواصلات کے علاوہ کسی بھی معاملے میں مداخلت کا اختیار نہیں تھا۔ آرٹیکل 35A، جو آرٹیکل 370 کا حصہ تھا، نے ریاست کے مستقل باشندوں کے تعین اور ان کے خصوصی حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے پیچھے بھارت کے کئی گھناونے عزائم پوشیدہ ہیں۔ بھارت کی حکومت جانتی تھی کہ کشمیری عوام کبھی بھی بھارتی تسلط کو قبول نہیں کریں گے۔ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے بھارت نے یہ اقدام اٹھایا تاکہ کشمیری عوام کی آواز کو دبایا جا سکے اور ان کے حق خود ارادیت کی تحریک کو روکا جا سکے۔
اسی لئے آرٹیکل 370 کے تحت جہاں غیر کشمیریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے اور بسنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد، بھارت نے کشمیر میں بڑی تعداد میں غیر کشمیریوں کو بسانے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ وہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ اقدام بھارت کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیر کی جغرافیائی اور سماجی ترکیب کو تبدیل کرنا ہے۔
کشمیر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس کی جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ بھارت کی حکومت نے ان وسائل پر قبضہ جمانے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے آرٹیکل 370 کو ختم کیا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد، بھارتی سرمایہ کار اور بڑی کمپنیاں وہاں کے وسائل پر قبضہ جما سکتی ہیں.
بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں اضافی فوجی تعینات کیے، کرفیو نافذ کیا، اور انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کو معطل کر دیا۔ ان اقدامات کا مقصد کشمیری عوام کی آواز کو دبانا اور بین الاقوامی برادری کو کشمیر کی اصل صورتحال سے بے خبر رکھنا تھا۔
یہ ہی نہیں بلکہ کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صحافیوں کو دھمکایا جا رہا ہے، انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے، اور ان کی رپورٹنگ کو سنسر کیا جا رہا ہے۔
بھارتی فوج نے ہزاروں کشمیریوں کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کیا اور حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ نوجوانوں، بچوں، اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی فوج کے ان اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور ان کی شدید مذمت کی ہے۔ مگر بھارت نے کشمیر میں خواتین کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی فوج نے خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کئی خواتین کو اغوا کیا گیا، زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کی یہ مثالیں بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
کشمیر کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے بھارت نے مختلف معاشی ناکہ بندیوں کا سہارا لیا۔ تجارت، زراعت، اور سیاحت کو بری طرح متاثر کیا گیا جس سے کشمیری عوام کی زندگی مزید مشکل ہو گئی۔ کاروبار بند ہو گئے، مزدور بے روزگار ہو گئے، اور عام شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔
بھارت کے اس غیر قانونی اقدام پر بین الاقوامی برادری نے جس طرح خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس سے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور مختلف ممالک کی عالمی اثر رسوخ اور کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے. بھارت کو اس اقدام سے باز رہنے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بند کرنے کا پاکستان جے دیرنے مطالبے کو عالمی ضمیر نضر انداز کرتا چلا آ رہا ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہیں اور اس مسئلے کا حل کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دے- لیکن بھارت ٹس سے مس نہیں ہو رہا.
بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ ایک غیر قانونی، غیر انسانی، اور غیر جمہوری اقدام ہے۔ اس کے پیچھے بھارت کے کئی گھناونے عزائم پوشیدہ ہیں جن کا مقصد کشمیری عوام کی آواز کو دبانا، آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا، اور اقتصادی مفادات حاصل کرنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہو رہی ہیں جن کی عالمی برادری کو شدید مذمت کرنی چاہیے اور کشمیری عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی تحریک جاری رہے گی اور ایک دن وہ اپنی منزل مقصود حاصل کریں گے۔
آخر میں، یہ ضروری ہے کہ ہم انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھیں اور ان کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ کشمیر کے مسئلے کا حل صرف اور صرف کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دے۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ کشمیری عوام کو اس ظلم و ستم سے نجات دے اور انہیں آزادی کی نعمت عطا فرمائے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوگا اور وہاں کے عوام اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں گے۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑی ہو اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے۔