ماسکو (صدائے روس) دنیا بھر میں یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے. روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی پانچ اگست کی مناسبت سے یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے ایک آن لائن ویبینار کا اہتمام کیا گیا اس ویبینار کا اہتمام تحریک کشمیر یورپ کے رشیا چیپٹر نے کیا-ویبنار میں قومی اسمبلی کی ممبر سحر کامران سمیت کشمیری کمیونٹی بھی شریک ہوئی.
ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے کنوینیر غلام محمد صفی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پانچ اگست سن 2019 کو بھارت نے جو یکطرفہ اقدام کیا اس کے ذریعے اس نے جموں کشمیر کے ریاستی تشخص کو ختم کیا جو سٹیٹ کوٹ جموں و کشمیر کا تھا ، اس کو سٹیٹ اف جموں و کشمیر کہا جاتا ہے تو ہندوستان نے پہلا وار کیا اسٹیٹ پر اس کو دو یونین ٹیریٹریز میں بدل دیا جموں و کشمیر ایک ٹیریٹری لداخ دوسری ٹیریٹری جموں و کشمیر کو اسمبلی لداخ کو کوئی اسمبلی نہیں اور دوسرا کام جو اس نے کیا وہ یہ تھا کہ جموں و کشمیر کو ایک سپیشل سٹیٹس حاصل تھا جموں کشمیر میں کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ زمین نہیں خرید سکتا وہ اس کا باشندہ نہیں قرار دیا جا سکتا وہ ملازمت نہیں کر سکتا تھا وہاں وہ جائیداد نہیں بنا سکتا تھا ۔ لیکن اج کل 37 سی اور 35 اے کا خاتمہ کر کے نہ صرف ہندوستان نے جموں و کشمیر کو ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے برابر ایک ریاست کا درجہ دیا کیونکہ یہ بی جے پی کے الیکشن منشور میں موجود تھا -یہ کشمیریوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلنے کی سازش ہے.
آن لائن ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب نے کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر روشنی ڈالی- محمد غالب نے کہا کہ ہندوستان اس طرح کے جو بھی اقدامات کرے گا وہ غیر قانونی ہوں گے اور کشمیری بھی اس کو تسلیم نہیں کرتے اور دنیا بھی اس کو تسلیم نہیں کرے گی وہ اس لیے کہ کشمیریوں کے ساتھ دنیا نے وعدے کر رکھے ہیں، اوران وعدوں کو انڈیا اور پاکستان نے بھی تسلیم کر رکھا ہے اور ہندوستان ہی وعدوں کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ ہے
پی ٹی وی نیوز کے پروگرام “کشمیر میگزین” کے اینکر پرسن یاسر رحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ٹوٹلی جو نان کشمیرییز ہیں ان کو نوکریاں دینا شروع کر دی ہیں ان کی جواکنامی ہےاس کو کئی بلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے لیکن جو انڈیا اچیو کرنا چاہ رہا تھا ان پانچ سالوں کے اندر فی الوقت تو وہ اچیو نہیں کر پایا –
سویڈن سے اس آن لائن ویبینار میں شریک سئنیر صحافی زبیر حسین نے کہا کہ دنیا کی نگاہیں جو زیادہ تر فلسطین کے مسئلہ پرہیں لیکن یہی صحیح وقت ہے کہ جب فلسطین کے اوپر ہم اتنا کام کر رہے ہیں تو ہمیں کشمیر کو بھی اس میں انکلوڈ کرنا پڑے گا اگر فلسطین کی بات کی جائے اور جس ملک میں میں بیٹھا ہوا ہوں اس کی بات کی جائے تو سویڈن جو ہے وہ یورپ کا واحد اور پہلا ملک تھا جنہوں نے فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کیا تھا تو فلسطین یا کشمیر میرے خیال سے وہ ان کا جزدان ہے.
سیکرٹری اطلاعات تحریک کشمیر یوکے۔ ریحانہ علی ایدووکیٹ نے اپنے خطاب میں کشمیری عوام پر فوجی دباؤ میں اضافے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرتشویش کا اظہار کیا -انھوں نے کہا کہ بھارت کا جمہوری ، اور سیکولر کا جھوٹا چہرہ اور دوہرا معیار دنیا کو سمجھ آچکا ہے. عالمی برادری کشمیریوں سے کیا گیا وعدہ پورا کرے.
کشمیر کونسل یورپ علی رضا سید کا کہنا تھا کہ بھارت نے ماورائے عدالت قتل یاجبری طور پر لوگوں کو لاپتا کر دیا ہے کشمیری مسلمانوں کو اپنے مذہبی اجتماعت بشمول نماز عید نماز جمعہ اور محرم کی مجالس کے انعقاد کی اجازت نہیں جبکہ دوسری طرف جو یاترا کے لیے آٹھ لاکھ لوگوں کو انہوں نے اجازت دی. انسانی حقوق کی پامالی عالمی ضمیر کے لئے سوال ہے. ہمارا وطن جموں کشمیر دنیا کے خوبصورت اور حسین خطہ ہے لیکن اس خطے کے ایک بڑے حصے کے لوگ 1947 سے بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں سنگین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں-
علی رضا سید نے مذید کہا کہ بھارت نے 2019 میں اپنے ائین کے ارٹیکل 370 سی اور 35 اے کو حذف کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی کچھ محدود خود مختاری کو بھی واپس لے لیا تھا متنازعہ خطے کے بارے میں پانچ اگست 2019 کو کی گئی کہ کاروائی نہ صرف ایک غیر قانونی یکطرفہ اقدام تھا بلکہ یہ بھارتی جبر کا تسلسل اور کشمیریوں کے حق خودارادیت اور ان کی شناخت اور وقار کے خلاف ایک گہری سازش تھی یہ جموں و کشمیر کی پوری قوم کے وجود اور حق خودارادیت کی ان کی درینہ خواہشات پر براہ راست حملہ تھا –
تحریک کشمیر یورپ یوکے کے صدر فہیم کیانی نے کہا کہ عالمی دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، یوکے پارلیمنٹ میں اس وقت اٹھ ڈیبیٹ ہو چکی ہیں اس میں کشمیریوں کے حق میں ریفیشلی ریزولوشن بھی پاس ہوا ہے اور کشمیر کے مسئلے کو کو متنازعہ مسئلہ تسلیم کیا گیا ہے اور ماس ارگنائزیشن میں دیکھیں تو پانچ اگست 2019 کے بعد بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں لندن کے اندر بھی اور یورپ کے اندر بھی تو یورپین پارلیمنٹ میں بھی اسی طرح ہماری جو کشمیر کے مسئلے کے اوپر ڈیبیٹس بھی ہوئی ہیں وہ ہیومن رائٹس کمیٹیز پہ بھی ہوئی ہیں ، کشمیر کے ایشوز پر جہدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے.
ماسکو میں کشمیری صحافی اور تحریک کشمیر یورپ رشیا چپٹر کے ارگنائزر سید اشتیاق ہمدانی نے کہا کہ بھارت کے اس اقدام کے پیچھے کئی گھناونے مقاصد پوشیدہ ہیں۔ پہلا مقصد کشمیری عوام کی آواز کو دبانا اور ان کی حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ کشمیری عوام کبھی بھی اس غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کریں گے، لہذا اس نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے اس قسم کے غیر جمہوری اقدامات کیے۔
دوسرا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت غیر کشمیریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے اور بسنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد بھارت نے کشمیر میں بڑی تعداد میں غیر کشمیریوں کو بسانے کی نہ صرف منصوبہ بندی کی بلکہ وہ لاکھوں ہندوستانیوں کو وہاں بسا چکا ہے تاکہ وہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔
تیسرا مقصد بین الاقوامی برادری کی توجہ دیگر مسائل کی جانب مبذول کرانا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ وہ عالمی برادری کو کشمیر کےمسئلے پر جوابدہ ہے، لہذا اس نے ایک ایسا اقدام کیا جس سے دیگر مسائل پر توجہ مرکوز ہو جائے اور کشمیر کی اصل صورتحال پس پردہ چلی جائے۔