ہومکالم و مضامینوزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے عوامی مطالبہ

وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے عوامی مطالبہ

shah nawaz siaal

شاہ نواز سیال
عام آدمی میں بڑھتی ہوئی مایوسی دیکھ کر کئی طرح کے خطرات کو جنم لیتا محسوس کر رہا ہوں- مایوسی کی وجہ کا کوئی ایکشن پہلو نہیں کئی وجوہات ہیں ہمارے عوامی، فلاحی دفاتر میں بیٹھے ہوئے دلال عام آدمی کو دلدل کی طرف پھینک رہے ہیں لوٹ مار عام ہے خود پر بیتی ہوئی گزشتہ دنوں کی روداد آپ کی نظر کرتا ہوں- کہانی کچھ اس طرح ہے کہ 15,جون 2024ء شام 5:30 پر ملتان کے تھانہ چہلیک کے پچھواڑے مین گلی سے عزیز ابوبکر صدیق سے کچھ دنوں کے دعا سلام کے شناسا شخص ذیشان قمر جھانسہ دیکر موبائل فون چھین کر بھاگ گیا میں اور ابوبکر صدیق دونوں ملزم کی تصویر ،شناختی کارڈ ،موبائل نمبر اور اس کے گھر کا پتہ ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست کے ساتھ لف کرکے تھانہ چہلیک ملتان کے استقبالیہ سنٹر پر جمع کرانے گئے استقبالیہ سنٹر پر بیٹھے ہوئے اہلکار نے کہا کہ آپ پہلے درخواست لے کے ایس ایچ او سے ملیں جب ہم درخواست لیکر ایس ایس او سے ملے تو انہوں نے ہماری بات سننے کے بعد وہی درخواست اسی تھانہ چہلیک کے میثاق سنٹر کے انچارج ایک اے ایس آئی کے حوالے کی اس نے درخواست پر درج شدہ ملزم کا کئی بار نمبر ملایا مگر ہمارے سامنے رابطہ نہ ہوا اس کے بعد پورا مہینہ جب بھی وہ مجھے بلاتے میں جاتا رہا خیر وہاں جو کچھ میں نے دیکھا وہ ناقابل برداشت ہےخیر میرے کام کی پوزیشن صفر بٹا صفر سے کچھ زیادہ نہیں تھی بس لارے جب ایک مہینے سے وقت اوپر ہوگیا پھر مجھے کہا کہ استقبالیہ سے مینول فارم لے آئیں میں فارم لے آیا اس فارم پر نامعلوم درخواست لکھوا دی آج تک کام نہیں ہوسکا –
اسی طرح آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں وہاں آپ کو عوامی نوکر سیاسی ڈیرہ چلاتے نظر آئیں گے اب ایک نظر جامعہ زکریا ملتان کے ایک طالب علم کی کہانی پر عزیز طالب علم کہتے ہیں کہ میں کسی کام کے سلسلے میں اپنے شعبہ جات کے کلرک کے ساتھ محو گفتگو تھا اسی دفتر سے میری نظر سامنے سینیئر پروفیسر کے آفس میں پڑی وہ صاحب موجود تھے میں سلام کرنے چلا گیا وہ مجھے گھور کر کمتر نظروں سے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نے کوئی گستاخی کردی ہو طالب علم کہتے ہیں میرے سلام کا جواب تک نہیں دیا صاحب بہادر بادشاہانہ انداز میں کہنے لگے آپ میرے دفتر کیوں آئے ہیں ؟ آئندہ دوبارہ نظر نہیں آنا طالب علم کہتے ہیں میں حیران رہ گیا جب تک ہم ان کے بیگ اٹھاتے رہے ہیں ،چابلوسی کرتے رہے ہیں، انہیں تحفے تحائف دیتے رہے ہیں،روزمرہ ان کے گھر کے کام کاج کرتے رہے ہیں،ان کے مخبر بنے رہے ہیں اور ان سے بلیک میل ہوتے رہے ہیں تب تک ہم منظورِ نظر رہتے ہیں جب ان خدمات میں سے کہیں بھی کمی واقع ہو جائے تب ہم ان کی نظر میں جانور سے بھی کمتر ہو جاتے ہیں یہ کہانی ایک طالب کی نہیں ہے بلکہ ہماری جامعات میں یہی کچھ ہورہا ہے طالب علموں کی تربیت کی بجائے انہیں اخلاقی اقدار سے محروم کیا جارہا ہے انہیں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث کیا جاتا ہے بچوں کو خوشامد ،چابلوسی ،سفارش اور رشوت کے مختلف ذرائع سکھائے جاتے ہیں ایسا کرنے والے وہ حضرات ہیں جو خود نیپوٹیزم کی بدولت یا دیگر غیر اخلاقی طریقوں سے جامعہ میں تعینات ہوئے ہیں میری اعلی اداروں سے درخواست ہے کہ آپ ہر جامعہ میں گزشتہ دس سال سے تعینات ہر تعیناتی کا میرٹ پر آڈٹ کریں آپ کو پتہ چلا جائے گا کہ ہماری جامعات میں ریسرچ اور نئی ایجادات نہ ہونے کی وجہ نااہل اور سفارشی بھرتیوں کا عمل دخل ہے –
تیسری دکھ بھری داستان نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کی ہے جہاں کوئی میکانزم نہیں ہے جہاں نہ تو معقول تنخواہیں ہیں نہ ملازمت کی کوئی گارنٹی ہے ایم فل ،پی ایچ ڈی اساتذہ چالیس ،پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہے ہیں جو لگاتار مسلسل ذہنی اذیت کا شکار ہیں- حکومت وقت سے درخواست ہے کہ آپ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کے لیے کوئی میکانزم بنائیں اور ان کی رجسٹریشن کریں تاکہ روشنی کی لہروں کا سفر آسان ہوسکے –
چوتھی داستان اس عام آدمی کی ہے جس کی وجہ سے ملک کا نظام چل رہا ہے وہ عام آدمی ہر چیز پر ٹیکس دے رہا ہے بجلی کے بلوں سے لیکر اپنے پرائے کفن تک یہ عام آدمی حب وطن بھی ہے اور وطن پرست بھی ہے عام آدمی کی کہانی کا مختصر واقعہ کچھ روز پہلے ملتان کی آخری تحصیل جلالپور پیر والہ کے موضع عنایت پور کی بستی نون سیال جہاں انسانی آبادی پندرہ سو افراد پر مشتمل ہے وہاں 25kv,25kv کے دو ٹرانسفارمر لگے ہوئے ہیں عرصہ دراز سے اہل علاقہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں 50kv,50kv کے ٹرانسفارمر چائیے منظوری ہونے کے بعد ابھی تک میپکو سب ڈویژن علی پور سادات نے نہیں لگائے کچھ روز پہلے لوڈ زیادہ ہونے کی وجہ ایک ٹرانسفارمر جل گیا علاقے کے لوگوں کو واپڈا عملہ بمع علاقہ زمیندار کہہ رہے ہوں کہ فی گھرانہ پیسے اکٹھے کریں پھر ٹرانسفارمر بنے گا یہ حالت ہے عوامی فلاحی اداروں کی آپ خود بتائیں جب حالات اس طرح کے ہوں کہ ہر ادارہ اپنی مرضی کر رہا ہوں کوئی چیک ان بلنس نہ ہوں کیا مایوسی نہیں بڑھی گی ؟
میری وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور اعلی اداروں سے اپیل ہے کہ خدا را عوام کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں بلکہ فوری طور پر ایکشن لیں جہاں کوئی ملوث ہے انہیں نشان عبرت بنائیں! سب سے پہلے پاکستان –

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل