شاہ نواز سیال
جب ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انسان مختلف طرح کے خدو خال کا شکار دکھائی دیتا ہے کبھی غار میں ،کبھی جنگل میں ،کبھی صحرا میں اور کبھی کھلی فضامیں جب انسان غار میں رہتا تھا تو اسے کیڑے مکوڑوں سے تحفظ چائیے تھا جب انسانوں نے جنگلوں کارخ کیا تو اسے جانوروں کے آزاروں سے بچنا ضروری ہوگیا پھر شاید انسان نے سوچا ہوگا کہ ہم سب انسانوں کے ایک جیسے مسائل ہیں تو کسی ایک جگہ کھلی فضا میں آباد ہو جائیں جہاں ایک دوسرے کا تحفظ کرسکیں کیونکہ ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں ہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے اپنے رب کی صفات پر چلتے ہوئے کسی کو بے سہارا نہیں کریں گے کیونکہ رب کسی کو بے سہارانہیں کرتا خیر وقت کے ساتھ ساتھ انسان ذمہ دارایاں بھولتا گیا رب کی صفات کو چھوڑ کر جانوروں جیسی صفات اپنالیں دنیا تخلیق کے مقصد کے برعکس چلی گئی جس کے نتائج جرم کی شکل میں نمودار ہوئے –
دنیا میں جرم حقیقت بن گیا تو جرم کی سرکوبی کرنے والے عناصر بھی حقیقت بن گئے دونوں کا آمنا سامنا ہمیشہ سے رہا ہے اور سدا رہے گا جب انسان نے مل کر رہنا سیکھا تو زندگی کے ضابطے بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی-
اگر انسان ضابطوں پر عمل کرتا تو کسی کی حق تلفی نہ ہوتی اور معاشرہ خوبصورت بن جاتا ضابطوں کو توڑنے والے معاشرے کے دشمن بنتے گئے اور انہوں نے تہذیب وتمدن کو دشمن بنا دیا ضابطے توڑنے والوں کی سخت سزا کیلئے پولیس کی ضرورت سامنے آئی ہوگی۔
اگر موجودہ دور کی بات کریں تو پولیس کا نظام یا پولیسنگ کسی بھی قوم اور معاشرے کی اصلاح و فلاح اور ترقی و بلندی کے لیے ایک اہم ترین شعبہ تصور کی جاتی ہے۔
اِس شعبے کے قیام کا مقصد معاشرے سے جرائم ، بدعنوانیوں اور خلافِ قانون حرکات کو ختم کرکے اْس کو پاکیزہ اور صاف بنانا ہوتا ہےتاکہ معاشرہ کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرکے دْنیا میں امن و امان اور راحت و اطمینان کا ذریعہ بنے، لوگوں کے مال و جان، عزت و آبرو، اور اْن کا تشخص محفوظ رہے، اور وہ سکھ، چین، اور عافیت کی زندگی گزار سکیں جس قوم اور معاشرے میں محکمہ پولیس جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا جرائم اور بدعنوانیاں اْس میں اُتنی ہی کم ہوں گی اورامن وامان اور حفظ و سلامتی کا دور دورہ ہوگا۔
شکر کا مقام ہے کہ تازہ ترین رینکنگ میں جہاں افواج پاکستان دنیا کی بہترین ملٹری فورسز میں شامل ہے وہاں پاکستانی پولیس رینکنگ کے معاملے میں تیزی سےمنازل طے کرتی نظر آرہی ہے۔
جب ہم پاکستان پولیس کی بات کرتے ہیں تو دیگر صوبوں کی پولیس کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن میں پنجاب پولیس آرہی ہوتی ہے پنجاب پولیس کے روحِ رواں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب پولیس کو عوام دوست بنانے میں پورا انفراسٹرکچر تبدیل کردیا ہے تھانوں کی نئی عمارتوں میں سہولت سنٹر ،میثاق سنٹر ، ضلعی اور ریجنلز اہم دفاتر میں عوامی سہولت سنٹر قائم کرکے پنجاب پولیس کو نئے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق استوار کردیا ہے اور محکمہ پولیس میں تعینات ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے نئی اصطلاحات لے کے آئے ہیں –
جب ہم پنجاب پولیس کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں دو قابل اور بہترین آفیسرز آتے ہیں جن کا یہاں ذکر ضروری ہے جو سر زمین اولیاء میں لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے میں ہر دم مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں
سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر صاحب اور ایس ایس پی آپریشنز کامران عامر خان صاحب جنہوں نے اپنے روح رواں کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے جو ناصرف ملتان میں اپنے محکمے کا بہترین تعارف بنے ہوئے ہیں بلکہ ملتان کی عوام دوستی کے سبب بے حد احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں –
ان دونوں سینئر پولیس آفیسرز نے حال ہی میں اپنی بہترین ٹیم کے ہمراہ ملتان شہر میں تاریخی سرچ آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں ملتان پولیس تھانہ سیتل ماڑی
ملتان پولیس تھانہ نیو ملتان، تھانہ دہلی گیٹ، تھانہ شاہ رکن عالم اور اے وی ایل ایس نے ڈکیتی اور رابری کی وارداتوں میں مطلوب 22 گینگز کو گرفتار کر کے 03 کاروں، 78 موٹر سائیکلوں، 54 موبائل فون اور نقدی سمیت کل 05 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا مال مسروقہ برآمد کیا اور تمام تر امانتیں اصل مالکان کے حوالے کیں –
اس کے علاوہ ملتان میں پنجاب پولیس ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ نشتر ہسپتال سے نومولود اغوا ہونے والے بچے کو دو روز کے اندر بحفاظت بازیاب کراکے سی پی او ملتان محترم صادق علی ڈوگر صاحب اور ایس ایس پی آپریشنز محترم کامران عامر خان صاحب نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ورثاء کے گھر پہنچ کر بچہ حوالے کیا اور اغوا کار خاتون کو گرفتار کیا –
ایس ایس پی آپریشنز محترم کامران عامر خان صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایسے پولیس آفیسر ہیں جنہیں عوام سیلیوٹ کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتی ہے اچھے اور محنتی پولیس آفیسرکی ترقی اور ایمانداری سے کام کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کا سیاسی کلچر ہے جو اکثر ہر ادارے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ شہر اولیاء میں پہلی دفعہ ایسے آفیسرکی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے جنہوں نے اپنی پوری سروس کے دوران غیر سیاسی آفیسرکے طور پر شہرت پائی ہےیہ آفیسرتگڑے کمانڈر ہی نہیں بلکہ ایماندار، بہادر، دیانت دار اور غیر سیاسی پولیس آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ ایسے پولیس آفیسر ہیں جن پر آج تک کرپشن کا الزام نہیں لگا اور نہ ہی کبھی ان کے حوالے سے کسی قسم کا سیاسی ایجنڈا سامنے آیا ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں، پولسینگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔