اشتیاق ہمدانی
ماریہ زاخارووا کو سالگرہ مبارک
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2016 میں، وزارت خارجہ کی پریش بریفینگ کے بعد میں نےماریہ ذخارووا سےمصحافہ کیا تھا ، اور کچھ دنوں کے بعد جب میں نے رشیا میں کسی ہائی لیول حکومتی نمایندے کو اپنا پہلا سوال کیا تو، میری زبان سے الفاظ ادا کرتے وقت میں نروس تھا، لیکن ماریہ ذخارووا نے جس خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ میرے سوالات کے جوابات دیئے، رفتہ رفتہ انھوں نے میرے ہی نہیں مجھ جیسے بہت سارے غیرملکی صحافیوں کے اعتماد اور راہنمائی کی. جو ہمیں پریکٹیکل لائف میں بہت ہی سود مند ثابت ہوئی. میری رپورٹس میں تو آپ نے ماریہ ذاخارووا کا نام اکثر سنا ہے. آج ماریہ ذخارووا ایک بار پھر اپنی سالگرہ منا رہی ہیں، ان کے جنم دن کی مناسبت سے عالمی میڈیا میں چھائی اور یورپین اور امریکن میڈیا کی فیک اور ییلو صحافت کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ائرن لیڈی ماریہ ذخارووا کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے.
ماریہ ذخارووا (Maria Zakharova) روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے طور پر عالمی سیاست میں ایک نمایاں شخصیت بن چکی ہیں۔ ان کا تعلق روس کے ایک اہم سرکاری ادارے سے ہے اور وہ عالمی سطح پر اپنے مواقف اور موقفوں کی پیشکش میں بے باک اور واضح ہیں۔ ذخارووا کی شخصیت اور ان کے کام نے عالمی تعلقات، خاص طور پر روس اور مغربی ممالک کے تعلقات، پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کی بول چال، نظریات اور ابلاغی حکمت عملی نے انہیں ایک منفرد مقام دیا ہے۔ یہ کالم ماریہ ذخارووا کی زندگی، کیریئر اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔
ماریہ ذخارووا 24 دسمبر 1975 کو ماسکو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین دونوں ہی تعلیم یافتہ اور سرکاری ملازمین تھے۔ ماریہ نے ماسکو کی وزارتِ خارجہ کی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، جہاں ان کی تعلیم کا مرکزی شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت نے ان میں عالمی سیاست کے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی اور انہیں عالمی فورمز پر روس کے مفادات کے تحفظ کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔
ماریہ ذخارووا نے اپنے کیریئر کا آغاز روسی وزارتِ خارجہ کے مختلف شعبوں سے کیا۔ وہ 2005 میں وزارتِ خارجہ میں شامل ہوئیں اور جلد ہی اپنی محنت اور ذہانت کے بل پر اہم عہدوں پر فائز ہو گئیں۔ ذخارووا کا شمار روس کے ان اہم سفارتکاروں میں ہوتا ہے جو عالمی مسائل پر مستند اور مدلل رائے رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی حیثیت سے سامنے آئی۔
2015 میں انہیں روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آ کر ماریہ ذخارووا نے اپنے منفرد انداز میں روس کی خارجہ پالیسی کی نمائندگی شروع کی۔ ان کے اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے اپنے خیالات اور روسی حکومت کے موقف کو عالمی سطح پر مؤثر طریقے سے پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماریہ ذخارووا نے سفارتکاری کے اس اہم شعبے میں ایک نیا رنگ ڈالا ہے، جس سے روس کی عالمی ساکھ کو بڑھاوا ملا۔
ماریہ ذخارووا کی اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہیں، بلکہ ان کے عالمی سیاست میں کردار نے انہیں ایک عالمی شخصیت بنا دیا ہے۔ ان کی تقریریں اور بیانات عالمی میڈیا میں اکثر خبروں کی سرخی بن جاتے ہیں، خاص طور پر جب روس مغربی ممالک کے ساتھ کشیدگی کا شکار ہو۔
ماریہ ذخارووا اپنے بیانات میں روس کے موقف کو ہمیشہ واضح اور بے باک انداز میں پیش کرتی ہیں۔ وہ روس کے قومی مفادات، خارجہ پالیسی اور عالمی سطح پر روسی نظریات کی کھل کر حمایت کرتی ہیں۔ 2014 میں یوکرین کے بحران کے دوران، ذخارووا نے عالمی سطح پر روس کے موقف کی بھرپور نمائندگی کی۔ انہوں نے مغربی ممالک پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ یوکرین کے معاملے میں روس کے خلاف غلط معلومات پھیلا رہے ہیں اور عالمی میڈیا کو روسی مفادات کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
ماریہ ذخارووا نے روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو ہمیشہ کھل کر بیان کیا ہے۔ ان کا موقف یہ رہا ہے کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور یورپی یونین نے روس کے خلاف غیر ضروری اور منفی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ 2016 میں روسی ہیکرز کے الزامات اور 2018 میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کے حوالے سے مغرب اور روس کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا، جس پر ذخارووا نے اپنے بیانات میں مغربی ممالک کی جانب سے روس پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا۔
وہ اکثر مغربی میڈیا اور سیاست دانوں کو “جھوٹے” اور “منافق” قرار دیتی ہیں اور روس کے موقف کی حمایت کرتی ہیں۔ ان کے بیانات روس کے نقطہ نظر کو واضح کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور عالمی سطح پر روس کے لیے ایک مثبت امیج بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد ماریہ ذخارووا نے عالمی سطح پر روس کا موقف پیش کرنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی میں اضافہ کیا۔ روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہونے کے ناطے انہوں نے یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کو “خصوصی فوجی آپریشن” قرار دیتے ہوئے مغربی ممالک کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس دوران انہوں نے مغرب پر الزام عائد کیا کہ وہ یوکرین میں جاری جنگ کی حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور روسی اقدامات کو عالمی سطح پر منفی رنگ دے رہے ہیں۔
ماریہ ذخارووا کی میڈیا سے تعلقات بھی بہت اہم ہیں۔ وہ روسی حکومت کے موقف کو عالمی میڈیا میں مؤثر انداز میں پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کے بیانات عام طور پر تیزی سے عالمی خبروں میں شامل ہوتے ہیں، اور ان کی تقریریں اور پریس کانفرنسز روس کے موقف کو عالمی سطح پر پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ بنتی ہیں۔
ماریہ ذخارووا اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ ان کے کئی بیانات نے عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ ایک ایسا ہی بیان 2016 میں آیا تھا جب انہوں نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ داعش کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں روس کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مزید کہا کہ مغرب نے داعش کے دہشت گردوں کو تربیت دی اور انہیں اپنی جنگی حکمت عملی کا حصہ بنایا۔ اس طرح کے بیانات نے انہیں عالمی سطح پر ایک متنازعہ شخصیت بنا دیا۔
ماریہ ذخارووا کی شخصیت بھی ان کے کام کی طرح منفرد ہے۔ وہ ایک بہت ہی مضبوط، خودمختار اور پراعتماد شخصیت کی حامل ہیں۔ ان کے بیانات میں شدت اور عزم کی جھلک ملتی ہے، جو روسی پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے کام میں انتہائی پیشہ ورانہ ہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی ایک منفرد انداز کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی خوبصورتی اور سلیقے سے بات کرنے کی صلاحیت نے ان کو عالمی میڈیا میں مقبولیت حاصل کی ہے۔
ان کے اندازِ گفتگو میں ایک خاص نوعیت کی چیلنجنگ اور طنزیہ نوعیت بھی ہے، جو ان کی میڈیا کی کامیاب حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی تقریریں اور بیانات اکثر روس کے قومی مفادات اور عالمی سیاست میں روس کے کردار کو اجاگر کرتے ہیں، جس سے ان کی اہمیت اور مقام مزید بڑھا ہے۔
ماریہ ذخارووا نے اپنے کیریئر کے دوران عالمی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی بیانات، روسی موقف کی واضح نمائندگی اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیوں پر ان کا موقف روس کی عالمی سیاست میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذخارووا نے یہ ثابت کیا کہ ایک خاتون سفارتکار نہ صرف اپنے ملک کے مفادات کے لیے مؤثر طریقے سے کام کر سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کی شخصیت اور دنیا میں امن کے قیام کی خواہش اور فیک نیوز کا سدباب کرنے پر انہیں عالمی سیاست میں ایک منفرد مقام دیا ہے، اور ان کا اثر مزید بڑھتا جا رہا ہے۔