ماسکو (اشتیاق ہمدانی )
ہر سال 23 مارچ کو پاکستان میں یومِ پاکستان ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس قرارداد کی یاد دلاتا ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی بنیاد بنی۔ لیکن اس سال کا یومِ پاکستان ایک منفرد تاریخی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اس دن پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از مرگ ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز نشانِ پاکستان سے نوازا گیا۔
یہ اعزاز ایک ایسے شخص کو دیا گیا ہے جس کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ جمہوریت، عوامی حقوق اور ترقی پسند سیاست کے ساتھ جڑا رہے گا۔ لیکن یہ فیصلہ صرف ایک اعزاز تک محدود نہیں، بلکہ اس کے ذریعے ماضی کی ایک بڑی سیاسی ناانصافی کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ بھٹو کی شخصیت، ان کے کارنامے اور ان کی المناک موت پر ایک بار پھر بحث چھڑ چکی ہے کہ ان کی موت کا اصل ذمہ دار کون تھا؟ چار اپریل 1979 کو راولپنڈی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے المناک واقعات میں سے ایک تھا، جس پر آج بھی بحث جاری ہے کہ ان کی موت کا اصل ذمہ دار کون تھا؟
مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا اور بھٹو کو سیاسی طور پر راستے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ضیاء الحق کے دور میں انتہائی متنازع عدالتی کارروائی کے بعد بھٹو کو سزائے موت دی گئی۔ اس لیے ان کی موت کا سب سے بڑا ذمہ دار جنرل ضیاء الحق کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ بھٹو کے خلاف جو مقدمہ چلایا گیا، اسے آج بھی عالمی سطح پر ایک غیر منصفانہ عدالتی کارروائی قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے کئی ججز نے بعد میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا اور وہ آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صرف ضیاء الحق ہی نہیں بلکہ عدلیہ اور طاقتور حلقے بھی اس کھیل کا حصہ تھے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھٹو کی موت کے پیچھے بین الاقوامی ہاتھ بھی تھا۔ ان کا اسلامی دنیا کو متحد کرنے کا منصوبہ، جوہری پروگرام پر پیش رفت، اور امریکہ سمیت کئی مغربی طاقتوں سے ٹکراؤ ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو نشانِ پاکستان دینے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کے بچوں، بینظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کو بھی انصاف ملے گا؟
بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں اور عالمِ اسلام کی بھی پہلی خاتون رہنما تھیں۔ وہ جمہوریت، آئین کی بالادستی اور عوامی حقوق کے لیے آخری دم تک لڑتی رہیں۔ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک خودکش حملے میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ یہ قتل آج بھی ایک معمہ ہے۔ قاتل کون تھا؟ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بینظیر قتل کیس کی تحقیقات کی کوشش کی گئی، لیکن عدالتی پیچیدگیوں، اور بین الاقوامی سازشوں کی بنا پر یہ کیس آج تک حل نہ ہو سکا۔
کیا بینظیر کو بھی بعد از مرگ نشانِ پاکستان سے نوازا جائے گا؟ وہ بھی جمہوریت کی راہ میں اپنی جان قربان کر چکی ہیں، پھر ریاست انہیں بھی کیوں فراموش کر رہی ہے؟
میر مرتضیٰ بھٹو، جو بھٹو خاندان کے بڑے بیٹے تھے، انہیں 20 ستمبر 1996 کو کراچی میں پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت ان کی بہن بینظیر بھٹو خود وزیراعظم تھیں۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ ایک پولیس مقابلہ تھا یا ایک سیاسی قتل؟
یہ سوال آج بھی باقی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا ذمہ دار کون تھا؟ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو نشانِ پاکستان دیا جا سکتا ہے تو کیا میر مرتضیٰ بھٹو، جو بھی ایک سیاسی شہید تھے، انہیں بھی انصاف ملے گا؟
یومِ پاکستان 2025 کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از مرگ نشانِ پاکستان سے نوازا گیا۔ یہ فیصلہ ایک طرف بھٹو کی خدمات کا اعتراف ہے، تو دوسری طرف ان کے عدالتی قتل پر عدالت کی اخلاقی ندامت کا اشارہ بھی دیتا ہے۔
لیکن کیا یہ اعتراف صرف ذوالفقار علی بھٹو تک محدود رہے گا؟ کیا ان کے بچوں، بینظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کے لیے بھی ایسا کوئی اعتراف کیا جائے گا؟ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی جانب سے ہمیشہ مطالبہ کیا گیا کہ بھٹو کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے اور ان کے عدالتی قتل کو ریاستی ظلم قرار دیا جائے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو نشانِ پاکستان دیا جا سکتا ہے، تو بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کو کیوں نہیں؟
ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو—یہ تینوں جمہوریت اور عوامی حقوق کی علامت ہیں۔ ان کی قربانیاں تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ لیکن اگر ریاست واقعی انصاف کرنا چاہتی ہے، تو اسے ان سب کے قتل کے محرکات پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی، اور انہیں بھی وہی عزت اور مقام دینا ہوگا جو ذوالفقار علی بھٹو کو دیا گیا۔
بھٹو خاندان کا مشن نامکمل ہے، لیکن ان کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوں گی۔ اسی لیے آج بھی پاکستان میں ایک نعرہ گونجتا ہے
بھٹو زندہ ہے!