دوسری جنگ عظیم: سٹالنگراڈ کی لڑائی جنگ کا فیصلہ کن موڑ
اشتیاق ہمدانی
سٹالنگراڈ کی لڑائی (جولائی 1942 تا فروری 1943) دوسری جنگ عظیم کی سب سے خونریز اور فیصلہ کن لڑائیوں میں سے ایک تھی، جو سوویت یونین اور نازی جرمنی کے درمیان لڑی گئی۔ یہ لڑائی دریائے وولگا کے کنارے واقع صنعتی شہر سٹالنگراڈ (موجودہ وولگوگراد) میں ہوئی، جو اسٹریٹجک، فوجی اور علامتی لحاظ سے بے حد اہم تھا۔نازی جرمنی نے “آپریشن بارباروسا” کے تحت سوویت یونین پر حملہ کیا تھا اور 1942 میں جرمن افواج نے کاکیشیائی تیل کے ذخائر تک پہنچنے اور سٹالنگراڈ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ ہٹلر سٹالنگراڈ کو فتح کر کے سوویت عوام اور قیادت کا حوصلہ توڑنا چاہتا تھا، جب کہ اسٹالن نے اس شہر کے دفاع کو قومی غیرت کا مسئلہ بنا لیا۔
لڑائی میں دونوں جانب سے لاکھوں فوجی شامل تھے، اور یہ لڑائی شدید گلیوں میں لڑائی، توپ خانے کی بمباری، اور ہوائی حملوں سے عبارت تھی۔ جرمن فوج نے ابتدا میں کافی پیش قدمی کی، لیکن شدید سوویت مزاحمت، سخت سردی، اور رسد کی کمی نے ان کی پیش رفت کو روک دیا۔ نومبر 1942 میں سوویت فوج نے “آپریشن یورا” کے تحت جوابی حملہ کیا اور جرمن چھٹی فوج کو گھیرے میں لے لیا۔فروری 1943 میں جرمن کمانڈر فریڈرش پاؤلس نے ہٹلر کے حکم کے خلاف ہتھیار ڈال دیے۔ تقریباً 3 لاکھ میں سے صرف 91 ہزار جرمن فوجی زندہ گرفتار ہوئے، جن میں سے بہت کم واپس اپنے وطن پہنچ سکے۔سٹالنگراڈ کی فتح نے جنگ کا رخ موڑ دیا۔ اس کے بعد سوویت افواج نے مشرقی محاذ پر مسلسل پیش قدمی شروع کی، اور نازی افواج کے قدم پیچھے ہٹنے لگے۔ اس لڑائی نے نہ صرف سوویت عوام کے حوصلے بلند کیے بلکہ نازی جرمنی کی ناقابل شکست ہونے کی حیثیت کو بھی زبردست دھچکا پہنچایا۔