ماسکو – (اشتیاق ہمدانی)
ماسکو میں منعقد ہونے والے جدید آرٹ کے بین الاقوامی میلے آرٹ رشیا میں پاکستانی فنکار شاہ عبداللہ عالمی نے “ہم ایک ہی شاخ کے کھلنے والے پھول ہیں” کے عنوان سے ایک دلکش خطاطی کا مظاہرہ پیش کیا۔
“آرٹ رشیا 2025” ماسکو میں منعقد ہونے والا ایک سالانہ بین الاقوامی آرٹ میلہ ہے، جو 3 سے 6 اپریل تک مرکزی نمائش گاہ “گوسٹینی دویور” میں منعقد ہوا۔ یہ میلہ مشرق و مغرب کے مابین ثقافتی روابط کو مضبوط بنانے، عالمی فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے، اور جدید و روایتی فنونِ لطیفہ کے امتزاج کو فروغ دینے کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔
اس سال کے ایڈیشن میں دنیا کے درجنوں ممالک سے سینکڑوں فنکاروں، گیلریوں اور ثقافتی اداروں نے شرکت کی۔ میلے میں خطاطی، پینٹنگ، مجسمہ سازی، میڈیا آرٹ، تنصیب، اور پرفارمنس آرٹ جیسے مختلف شعبوں کی نمائندگی کی گئی۔
“آرٹ رشیا” نہ صرف ایک نمائش کا موقع ہے بلکہ یہ فنکاروں، ناقدین، اور آرٹ سے محبت کرنے والوں کے درمیان مکالمے، ورکشاپس، اور ثقافتی تبادلے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ ایونٹ روس میں جدید فن کے فروغ، عالمی سطح پر ثقافتی ہم آہنگی اور آرٹ ڈپلومیسی کو فروغ دینے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔
ماسکو میں 3 سے 6 اپریل 2025 تک جاری رہنے والے جدید فن کے میلے آرٹ رشیا میں معروف پاکستانی فنکار شاہ عبداللہ عالمی ایک منفرد خطاطی کے مظاہرے کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔اپنے فن کا مظاہرہ انھوں نے تین میٹر طویل کینوس پر کیا، جسے خالص سنہری ورق سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس پر انھوں نے پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی نظم کے اشعار کی خطاطی کی:
“ہم نہ افغان ہیں، نہ ترک، نہ تاتار،
ہم ایک ہی شاخ کے کھلنے والے پھول ہیں۔
خوشبوؤں اور رنگوں کو بانٹنا گناہ ہے،
کیوں کہ ہم سب ایک ہی بہار میں کھلے ہیں۔”
شاہ عبداللہ عالمی نے اس حوالے سے اشتیاق ہمدانی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ،
“یہ اشعار ہمیں انسانیت کی وحدت اور ان گہرے رشتوں کی یاد دلاتے ہیں جو ہر قسم کی سرحدوں اور تقسیم کے باوجود ہمیں آپس میں جوڑے رکھتے ہیں۔”
اس مظاہرے میں انھوں نے خطاطی کی روایتی سیاہ مشق تکنیک کو کلاسیکی مراقبہ نما موسیقی کے ساتھ یکجا کر کے پیش کیا۔
یہ مظاہرہ نہ صرف فن اور ادب کے ملاپ کی خوبصورت مثال ہے، بلکہ عالمی سطح پر پاکستانی ثقافت اور روحانی پیغام کو پیش کرنے کی ایک بامعنی کوشش بھی ہے۔یہ فن پارہ نہ صرف خطاطی کے ذریعے فن کے اظہار کی ایک عمدہ مثال تھا، بلکہ اس نے مختلف اقوام کے درمیان مشترکہ روحانی اور ادبی ورثے کو اجاگر بھی کیا۔ شاہ عبداللہ کا یہ مظاہرہ فنونِ لطیفہ کے عالمی منظرنامے پر پاکستان کی مثبت شناخت کا حامل ثابت ہوا۔
روس میں پاکستان کے سفیر محمد خالد جمالی نے صدائے روس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، پچھلے سال دسمبر میں جب انٹرگورنمنٹل کمیشن ہوا تھا، تو اس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان خاص طور پر آرٹ، کلچر، اور لوگوں کے درمیان میل جول کو بڑھانا بہت ضروری ہے۔ یہ قدم دونوں ممالک کو قریب لانے کے لیے ہے۔ ایک طرف جہاں ہم بزنس کنیکٹیوٹی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانا چاہتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ثقافتی تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔
اسی سلسلے میں ہم نے شاہ عالمی کو یہاں لانے کی کوشش کی اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج ان کی پرفارمنس بہترین رہی ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ یہاں کے لوگوں نے ان کی پرفارمنس کو بہت پسند کیا۔ یہی ہمارا مقصد ہے کہ پاکستان کا اصل چہرہ، اس کا حقیقی عکس، یہاں کے لوگوں تک پہنچایا جائے۔
بعد ازاں عبداللہ شاہ عالمی نے صدائے روس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، یہ میرے لئے پہلی بار ہے کہ میں ماسکو آیا ہوں، اور اس تجربے پر مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میں خالد جمالی صاحب اور سارا صاحبہ کا دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اپنی منفرد ثقافت کی حامل ہے۔ ادب میں ہمارے بہت سے مشہور شعراء ہیں، اور مجھے یہاں آ کر یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اقبال کے اشعار کو روسی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح، مولانا رومی، حافظ اور دیگر شعراء کی شاعری کا بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔
اس سے بڑھ کر، مجھے یہ خوشی ہوئی کہ میں نے جو پرفارمنس پیش کی، اس میں اقبال کی شاعری کو مدنظر رکھا۔ اقبال کا جو اصل پیغام ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے رنگ و نسل اور سرحدوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انسانیت سب سے بڑی اور افضل ہے۔
میری پرفارمنس میں جو جو انداز تھا، وہ روایتی طرز سے متاثر تھا۔ جیسے کہ گولڈ رفنگ اور خطاتی (کالگرافی) کے بارے میں جو بات کی تھی، وہ دراصل اردو اور فارسی کے امتزاج کو پیش کرنے کی کوشش تھی۔ میں نے سماع کی حرکت اور کچھ انسولیشن کے عناصر بھی شامل کئے۔
اس کے بعد، جو گائیکی (گانے کی) آواز تھی، وہ پاک ہندوستانی طرز میں تھی جسے میں نے الاپ کیا۔ میری آخری عزت و توقیر کا مقصد یہی تھا کہ میں باؤنڈریز کے بیچ میں سے نکل کر دیکھ سکوں کہ انسانوں کی زبان، آواز، خط اور ثقافتیں ایک دوسرے کے قریب کیسے آ سکتی ہیں۔
دنیا کے مختلف حصوں میں ارٹسٹ کیسے آپس میں جڑتے ہیں، اس کا بہترین مثال میں نے پیش کرنے کی کوشش کی۔ یہاں موجود لوگوں میں سے زیادہ تر کو اردو یا خطاطی کی زبان سے واقفیت نہیں تھی، لیکن انہوں نے جس طرح سے میری پرفارمنس کو سمجھا اور محسوس کیا، وہ اس بات کی بڑی کامیابی ہے کہ کسی زبردستی یا تشہیر کے بغیر، آرٹ نے خود ہی محبت اور ثقافت کا پیغام پھیلایا۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں خطاطی کےحوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا جو طرز ہے، وہ ہمیشہ بہت قواعد اور ضوابط کو مدنظر رکھتا ہے۔ یہ ایک خاص ریاضیاتی فارمیٹ میں ہوتا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے خاص ترتیب اور قانون کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تاہم، میں نے اپنی پرفارمنس میں یہ کوشش کی کہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، جدید دور کی عکاسی بھی کی جائے۔ میرے کام میں آپ کو ٹریڈیشنل لیکن موجودہ دور کے اثرات بھی نظر آئیں گے۔
ان کی پینٹنگز میں روسی طرز اور ہماری لوک کہانیوں اور ایپوسز کی جھلکیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ہر موضوع کو وہ اہم روسی عناصر کے ذریعے پیش کرتی ہیں، جو ناظرین کے لیے قابلِ فہم اور دلکش ہوتے ہیں۔ ان کے آرٹ ورک میں سادگی اور گہرائی کی خاصیت ہے، جو ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ میں بچپن سے ہی آرٹ سے محبت کرتی ہوں؛ یہ نہ صرف مجھے توانائی بخشتا ہے بلکہ میری تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بھی دیتا ہے۔ دیکھنے اور خود تخلیق کرنے سے مجھے سکون اور خوشی ملتی ہے۔
یہ پرفارمنس حقیقت میں ایک خاص تجربہ تھا۔ میں پرفارمنس آرٹ سے بہت محبت کرتا ہوں، اور ہمیں پہلے سے بتایا گیا تھا کہ پاکستان سے کچھ نیا پرفارمنس پیش کیا جائے گا۔ یہ واقعی غیر متوقع تھا، خاص طور پر آغاز میں موسیقی اور پھر آوازیں سن کر، جو ایک مراقبے جیسا تجربہ تھا اور ذہن کو بلند کر دیتی تھیں۔ بہت خوبصورت، شکریہ۔ میں یہ بار بار دیکھنا چاہوں گا۔مجھے یہ پرفارمنس بہت پسند آئی۔ مصنوعات کی موجودگی اور تخلیق کار کی روح کا احساس ہوا۔ یہ توانائی کا اضافہ کرنے والا لمحہ تھا۔ ہر لمحہ نیا اور قیمتی محسوس ہوا۔ میں دل سے شکر گزار ہوں۔
بہت دلچسپ اور خوبصورت۔ مصنوعات کی جادوگری، برش کی مہارت، اور لکیروں کا ظہور دل کو موہ لینے والا تھا۔ اس کے علاوہ، توانائی اور دعا کی فضا نے مجھے روحانی محسوسات سے ہمکنار کیا۔ جب میں نے دیکھا کہ فنکار مسلسل گاتا اور پینٹ کرتا رہا، تو یہ مجھے بہت متاثر کن لگا۔ میں خود بھی ایک روسی آرٹسٹ ہوں اور کل اپنی تخلیقات پیش کرنے جا رہا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میں گانا نہیں گا سکتا، اور اس سطح تک نہیں پہنچ سکتا، لیکن یہ پرفارمنس واقعی لاجواب تھا۔ میں مخاچکلا، داغستان سے ہوں اور 20 سال سے ماسکو میں رہ رہا ہوں۔
میں آج اس پرفارمنس کو دیکھ کر بہت خوش ہوں اور آرٹ کے تئیں میری محبت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کالگرافی آرٹ کا یہ حصہ میرے لیے نیا اور خاص تھا، اور یہ میری زندگی کا ایک نیا تجربہ تھا۔ مراقبے کے دوران کالگرافی آرٹ کا امتزاج روح کی صفائی اور ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے، جیسے آپ اپنی روح کو صاف کر رہے ہوں۔ یہ ایک منفرد اور اہم آرٹ ہے جو بڑے آرٹ کی دنیا میں اپنی نمایاں جگہ بنا چکا ہے۔