شاہ نواز سیال
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی جو بات سب سے زیادہ قابل تعریف ہے وہ اساتذہ کی صلاحتیوں کا اعتراف کرنا ہے ان پر بھروسہ کرنا ہے- جہاں پڑھاتے ہوئے اساتذہ کو ان پڑھ آدمی باہر پرکھ رہے ہوں جہاں بات بات پر انہیں ذہنی اذیت دی جائے بار بار پریشرائز کیا جائے اساتذہ کے بارے کلاس کے وقت گزار بچوں سے رائے لی جائے وہ قوم کہاں ترقی کرے گی –
دوسرا جہاں ایم فل, پی ایچ ڈی اساتذہ پر بی اے, ایم اے پاس نگران بیھٹا دیے جائیں جن کا کام اساتذہ کو ذہنی اذیت دینا ہو اس قوم کی کیا حالت ہوگی –
قومیں جب بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں تو وہ اپنے اساتذہ کی تکریم کی بدولت ہی منزلیں عبور کررہی ہوتی ہیں کسی قوم پر زوال آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی اساتذہ کی تکریم چھوڑ دینا ہے –
پاکستان میں پرائیویٹ سکول اور کالجز میں اساتذہ کی مجموعی صورتحال بڑی گھمبیر ہے ، اگر معاشرے اور حکومت کے رویے پر نظر ڈالی جائے تو اساتذہ سب سے مظلوم اور پسماندہ طبقہ معلوم ہوتے ہےں اپنے بنیادی حقوق سے محروم اساتذہ شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں ۔
اساتذہ کے مسائل کی نشاندہی کے باوجود مسائل کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ قوم کے مستقبل کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں ۔اساتذہ کے مسائل کیا ہیں ، انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس موضوع پر چیخنا چلانا تو کئی دہائیوں سے جاری ہے تاہم یہ بات دہرادینا لازمی ہے کہ وسائل کی عدم دستیابی اور معاشی طور پر مضبوط نہ ہونا اساتذہ کے اہم ترین بنیادی مسائل ہیں ۔
پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کی نئ نسل کو زیور علم سے آراستہ کر رہی ہے اور ایک استاد کو ضروریات زندگی اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کے لیے معقول تنخواہ درکار ہوتی ہے تاکہ وہ کسی معاشی دباؤ کے بغیر نسل نو کی صحیح معنوں میں آبیاری کر سکے، مگر وطن عزیز کی نجی تعلیمی اداروں میں قلیل اور تضحیک آمیز تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے اور سالانہ نہایت کم شرح سے تنخواہوں کے بڑھنے کا معیار بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔ انہیں وہ مراعات بھی میسر نہیں ’جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی باضابطہ پلیٹ فارم ہے‘ جہاں ان کے مسائل کے حل اور حقوق کی آواز کو حکام بالا تک پہنچایا جا سکے۔
حکومت سے درخواست ہے کہ پرائیویٹ اساتذہ کے لیے کوئی میکنزم بنائے ان کے حقوق کی ذمہ داری لے تاکہ وہ ذہنی اذیت سے بچ سکیں یا حکومت ایچ ای سی کو کہے کہ وہ رجسٹریشن کرے اساتذہ کی تاکہ حکومت کے پاس ریکارڈ ہو پرائیویٹ مالکان پر کوئی خوف کا سایہ ہو اپنی مرضی سے کسی کو ملازمت سے برخاست نہ کرسکیں سرکاری ملازمین کی پرائیویٹ کالجز اور سکول اساتذہ کے حقوق محفوظ ہوسکیں خدارا اساتذہ کو تذلیل سے بچائیں جو پرائیویٹ سیکٹر میں ہورہی ہے اگر حکومت نے نوٹس نہ لے –
تعلیم و تدریس انبیاء کا پیشہ ہے اور یہ اطمینان قلب اور روح کے سکون کے بغیر ممکن نہیں اور اساتذہ کو قلب و روح کا سکون ہی میسر نہیں ہے ۔
جس شخص نے نسلِ نو کی تربیت کرنی اور ایک سلجھا ہوا معاشرہ پیدا کرنا ہے وہ حکومت کی طرف سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے اساتذہ میں ماضی کے اساتذہ جیسی خوبیاں تو نہیں ، لیکن اگر ان کے مسائل کے حل پر توجہ دی جائے اور مرکزی ،صوبائی اور ضلعی سطح پر ان کا اعتراف کرتے ہوئے اساتذہ کی خدمات کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے تو مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔
ہر سال تعلیمی اداروں میں سینکڑوں اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں مگر یہ سینکڑوں اساتذہ پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے سرائے کے مہمانوں کی طرح وقت گزارتے اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد تدریس کا پیشہ ترک کرکے اعلیٰ مشاہروں پر غیر سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس تناظر میں معیار تعلیم کی اصلاح و بہتری کی کوششیں کیسے کارگر ثابت ہوسکتی ہیں ؟ بے شمار تعلیمی اور سماجی حلقے عرصہ دراز سے یہ کوشش کررہے ہیں کہ ذمہ دران کو اساتذہ کے مسائل کا احساس دلا کر ان کا ازالا کروایا جاسکے ۔
5 اکتوبر کا دن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں سیمینارز ، واک اور ایسی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے حکام بالا تک وطن عزیز کے لاکھوں اساتذہ کی آواز پہنچائی جاتی ہے ۔ یوم اساتذہ جہاں اساتذہ کی تکریم کا احساس دلانے کا دن ہے وہیں یہ اس عزم کے اعادے کا بھی دن ہے کہ اگر ایک بہترین قوم کی تشکیل درکار ہے تو اساتذہ کے مسائل اور مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کے ازالے کو اولیت اور ان مسائل پر توجہ دینا ہوگی-