یوکرین کی مسلسل امداد سے یورپ کی معیشت تباہی کے دہانے پر
تحریر: آتوسا دینیاریان
یورپ کی معیشت زوال کے دہانے پر ہے اور زیادہ تر یورپی ممالک شدید معاشی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پولیٹکو میگزین نے یورپی ممالک کی اقتصادی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد یورپ کا اقتصادی بحران اور سبز براعظم کی معیشت کئی چیلنجوں سے دوچار رہے گی۔ میگزین نے لکھا ہے کہ یورپ کی معیشت گرنے کے قریب ہے۔ جرمنی جو کسی وقت یورپ کی سب سے مضبوط معیشت تھی، اب ایک سنگین مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اقتصادی ترقی اور تعاون کی تنظیم کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی کی معیشت اگلے سال (2025ء) تک بھی صنعتی ممالک میں سب سے کم شرح نمو پائے گی۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔ فرانس کی حکومت کے اندازوں کے مطابق اس سال کے بجٹ کے بعد جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار 6.1 فیصد ہوگی۔
یورپ کا اقتصادی زوال حالیہ برسوں میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ ان ممالک نے گذشتہ چند سالوں بالخصوص کووڈ۔19 وبائی مرض کے دوران پابندیوں اور اخراجات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نتائج سے نمٹنے کے لئے کئی اقدامات انجام دیئے، اس دوران یوکرین کی بھی کھل کر مالی حمایت کی اور روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کیا اور امریکہ کی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے روس پر پابندیاں لگانے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوئے۔ ادھر روس نے یورپ کے بیشتر ممالک کے خلاف گیس کا ہتھیار استعمال کیا، خاص طور پر جرمنی کے لیے، یہ ایک اہم اور حیاتی مسئلہ ثابت ہوا۔ یورپی ممالک عرصے سے روس سے جرمنی تک جانے والی گیس پائپ لائن سے فائدہ اٹھاتے رہے، گویا کئی دہائیوں سے سستی توانائی سے لطف اندوز ہوتے رہے، لیکن روس یوکرین جنگ گیس کے بہاؤ میں نمایاں کمی کا باعث بنی اور یوں یورپی ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں توانائی کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور یورپ بھر میں کئی چھوٹی صنعتیں اور کارخانے بند کر دیے گئے ۔ دوسری جانب تیار شدہ اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یوکرائن کی جنگ نے یورپی ممالک کے لیے فوجی اور ہتھیاروں کے اخراجات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ان ممالک نے پچھلے چند سالوں میں یوکرین کو اربوں ڈالر کی امداد دی ہے۔ اس امداد نے یورپی شہریوں پر اقتصادی دباؤ بڑھایا ہے اور یورپ کی شرح نمو اور افراط زر کو متاثر کیا ہے۔ اسی طرح روس اور یوکرین کی جنگ میں یورپ کی مداخلت کے خلاف عوامی اعتراضات اور اس کے نتیجے میں کچھ یورپی ممالک میں سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا جس نے اقتصاد پر منفی اثرات مرتب کئے۔
یوکرین جنگ کے علاوہ، ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر کے طور پر انتخاب ہونا بھی داخلی کشیدگی اور یورپی حکام کی نگرانی میں اضافہ کا باعث بنا ہے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پہنچنے سے پہلے ہی یورپ پر دباؤ بڑھا دیا ہے، حالانکہ وہ ابھی مسند اقتدار تک نہیں پہنچے ہیں۔ نومنتخب امریکی صدر نے حال ہی میں یورپ کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ امریکہ سے تیل اور گیس نہیں خریدیں گے تو وہ اس بلاک کے خلاف ٹیرف بڑھا دے گا۔ یورپ کا معاشی نمو کا ماڈل جو برآمدات اور مینوفیکچرنگ پر انحصار کرتا ہے، امریکہ اور چین کی طرف سے طلب میں کمی کی وجہ سے زوال کا شکار ہے اور اس براعظم کی جی ڈی پی امریکہ سے نمایاں طور پر پیچھے ہے، جس سے منافع اور اقتصادی نمو میں کمی کی نشاندہی ہوتی ہے۔
چین کی ترقی اور دنیا میں اس ملک کی معاشی طاقت میں اضافے نیز برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں کمی اور بڑھتی عمر کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ بالخصوص ہتھیاروں اور دفاعی بجٹ میں اضافے نے یورپ کو اقتصادی بحرانوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ سوشل سروسز میں اضافے کے علاوہ دیگر عوامل بھی یورپی ممالک میں معاشی بحران کا باعث بنے ہیں۔ ماہر اقتصادیات ولفگانگ مونشاو نے لکھا ہے کہ جرمنی جو کہ ایک ترقی یافتہ ملک تھا، اب معاشی رکاوٹ کے باعث یورپی یونین کے معاونت کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں بہت کم سیاسی رجحان رکھتا ہے۔
پولیٹیکو نے اس تناظر میں لکھا ہے کہ “ڈونلڈ ٹرمپ” کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے یورپی معاشی خوشحالی کی بنیادیں منہدم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ یورپ کے معاشی خاتمے کا وقت قریب آگیا ہے۔ اگرچہ کچھ ماہرین کو یہ توقع ہے کہ یورپی ممالک اپنے طویل مدتی منصوبے سے اپنے معاشی حالات کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے کے قابل ہو جائیں گے، لیکن یوکرین میں جاری جنگ اور عالمی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے دوران ایسا ہونا بہت مشکل نظر آرہا ہے.