ہومتازہ ترینروسی صدر پوتن بمقابلہ امریکی صدر جوبائیڈن:چند برس پہلے کا عائشہ مسعود...

روسی صدر پوتن بمقابلہ امریکی صدر جوبائیڈن:چند برس پہلے کا عائشہ مسعود کا تجزیہ


چند برس پہلے کا عائشہ مسعود کا تجزیہ

قیام پاکستان کے بعد وطن کی حفاظت کا سوال سامنے تھا ، اس مقصد کیلئے ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ 1950میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر امریکہ نے دوسری جنگ عظیم ناکارہ قراردیا ہوا اسلحہ پانچ ملین ڈالر میں پاکستان کو دے دیا۔ اسلحہ اور بارود کی پہلی کھیپ جب نیو جرسی بندرگاہ پر پاکستان پہنچانے کیلئے جہازوں میں لادی جارہی تھی تو بارود میں خوفناک دھماکہ ہوگیا ۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ گورنر نے بندر گاہ کے علاقے میں مارشل لاء لگادیا ۔ ڈاکٹر عبدالخالق مرحوم نے اپنے کالم میں پاکستان میں مارشل لاء لگنے کے بعد لکھا۔”مارشل لاء پاکستان میں امریکہ سے آیا براستہ نیو جرسی ”ہمارے جیسے بہت سارے ملکوں میں اسلحہ بھی امریکہ سے آیا اور اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی رضا مندی بھی امریکہ سے آیا کرتی تھی ۔

امریکہ کے صدر بائیڈن نے آج روس کے سربراہ پوتن کو ”آمر”قراردے دیا اور یہ بھی کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کا وقت آگیا ہے اگر بات امریکہ کے اندر جمہوریت کے برقرار رہنے کی ہوتی تو سچی بھی محسوس ہوتی مگر دوسرے ملکوں میں کتنی جمہوریت ہے اور کون آمر ہے اس کا فیصلہ ہزاروں میل دور سے امریکہ کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے اور ان دنوں میں دنیا کے منظر نامے پر جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان میں ایک اہم تبدیلی علاقائی سیاست اور علاقائی معاملات کی اہمیت کا اُجاگر ہونا شامل ہے ۔ اب شاید امریکہ کیلئے دور سے روس یا پھر دیگر علاقائی معاملات میں ٹانگ اڑانی آسان نہ رہے ۔روس دیوقامت ملک ہے اور بہت بڑے معدنی اور انر جی کے خزانوں سے مالا مال ہے ۔

روس تیل پیدا کرنے والا اور دوسرا بڑا گیس پیدا کرنے والا ملک ہے ۔ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی ہے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن جس روس کے صدر پوتن کو اس وقت آمر قرار دے کر دنیا میں جمہوریت کے تحفظ کے علمبردار ہونے کے دعوے دار ہیں ، اُس روسی صدر پوتن کے بارے میں یہ باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں کہ پوتن روسی تاریخ میں اہم ترین لیڈر ہے ۔ پوتن آٹھ سالہ صدارت کے بعد روس کا وزیر اعظم بنا اور پھر تیسری بار روس کا چوتھا صدر منتخب ہوا ، پوتن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس کے دور میں روس نے ترقی کی اور یہ بہت ہی جراء ت مند اور بصیرت افروز لیڈر ہے ۔ پاک روس نقصانات کی خرابی میں امریکہ کا حلیف بننے کا عنصر شامل رہا ہے ۔

1959میں پشاور کے قریب پاکستان ہوائی اڈے سے اڑکر روس کے اندر جاسوسی کرنے والا امریکہ جہاز U-2روس نے گرالیا تھا اور امریکی ہواباز کو گرفتار کرلیا تھا ۔ اسی لئے 1965اور 1971میں روس کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف رہا اور یہ غلطیاں ماضی کی کمزور خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہیں جس پر نون لیگ والوں نے تو توجہ ہی نہ دی ، البتہ آصف زرداری نے روس کا دورہ کیا تھا ۔ حالانکہ امریکہ سے اقتدار کی پرچی حاصل کرنا نون اور پی پی پی دنوں کی خواہشات میں شامل ہے اور پھر پاکستانی عوام ہو یا سیاستدان ان کے بچوں کے مستقبل کے راستے امریکہ یا یورپ سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ، لہٰذا رجحان امریکہ نوازی ہوتا ہے ، البتہ اب کچھ عرصہ سے پاکستانی طالب علموں کی روس پڑھائی کے سلسلے میں روانگی کا سلسلہ جاری رہا۔ روسی صدر کے مضبوط اعصاب اور عقل و دانش والے ہونے کی وجہ سے امریکہ کیلئے بین الاقوامی طور پر اسلحہ فروشی کے سلسلوں کو بڑھاکر اور پھر ملکوں کے اندر جمہوریت کے قیام کے نام پر دخل اندازی اور حتیٰ کہ اقتدار کی مسند پر بٹھانے والوں کے لئے آشیر باد کا سلسلہ شاید اب زیادہ نہ چل سکے گا۔

یوکرین کے معاملے میں جنگ مسلط کرنے پر پوتن کو آمر قراردینا اگر درست مان بھی لیا جائے تو یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ نے یوکرین کو نیٹو کا ممبر نہ بنانے کا وعدہ کیا تھا پھر وہ کیوں توڑا گیا؟کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ نیٹو کا ممبر یوکرین کو بنانے کا مقصد کیا ہے اور پھر ممبر بناتے ہی روس کے بالکل سامنے امریکہ کی فوجوں کا قیام پذیر ہونا روس کیلئے کیا معنی رکھا ہے یہ روس بخوبی جانتا ہےاور روس اپنے تحفظ کیلئے اس جنگ میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ ایسے میں پاکستان کے وزیر اعظم نے غیر جانبداری اختیار کرنے اور کسی بھی بلاک کا حصہ نہ بننے کا درست فیصلہ کیا ہے ، ہمیں امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات نارمل رکھتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ بھی تعلقات رکھنے ہیں اور ہمارے لئے یہی بات فائدہ مند ہے ۔

امریکہ کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف رہے گا جبکہ پوتن کو امریکہ جھکانے میں ناکام ہوچکا ہے ۔ امریکی رعونت کو پوتن نے تسلیم نہیں کرنا اور روس اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان کو اہمیت دے گا اور دنیا کی سپر پاورز کی طرح اب ہم جیسے ممالک کو بھی صرف اپنے مفادات اور معاشی ترقی پر نظر رکھنا ہوگی ۔ اپنی آزادی کے فوراً بعد ہمیں امریکہ سے ناکارہ اسلحہ بھی خریدنا پڑا تھا، امریکہ اسلحے کی فروخت کو اہمیت دیتا ہےدراصل چین پروجیکٹس لگاکر معاشی ترقی کا حصہ بناکر آگے بڑھنے پر یقین رکھتا ہے ۔

ان کے ہاں ہر طرح کی پروڈکٹس تیار ہورہی ہیں ، دنیا کی ہر منڈی میں چین کی بنی ہوئی اشیاء کا غلبہ ہے اور یہ کسی پاور کے آگے بڑھنے کا مثبت انداز ہے جبکہ امریکہ اسلحے کی منڈی کو لے کر چلتا ہے اور اسلحہ بیچ کر فائدے اٹھاتا ہے جس کا نتیجہ انتشار ، افراتفری اور جنگ و جدل کی صورت نکلتا ہے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کے تحفظ کا نعرہ لگائیں مگر اپنا طریقہ کار تبدیل کرکے اسلحہ کی فروخت سے امریکہ کی معیشت کو جوڑ کر چلنا ترک کردیں ۔ یہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے ۔ افغانستان میں شکست کے بعد نصیحت حاصل کرنا ضروری تھا، صد شکر کہ پاکستان نے کچھ نصیحت حاصل کرلی ہے ، خدا کرے کہ یوکرین کو بھی عقل مند حکمران نصیب ہوتا اور عوام کی مشکلات کم ہوسکتیں ۔آمین

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل