پولش کسانوں کا روسی کھیرے کی درآمد پر پابندی کا مطالبہ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
پولینڈ کے کسانوں نے روسی کھیرے کی درآمد پر پابندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق مارچ میں روس پولینڈ کا سب سے بڑا کھیرہ فراہم کرنے والا ملک بن گیا، جس سے مقامی مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پولش کسانوں کا کہنا ہے کہ روسی زرعی مصنوعات خاص طور پر کھیرے کی قیمت کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روسی پیداوار میں توانائی کے اخراجات بہت کم آتے ہیں۔ روس کے پاس اپنے توانائی کے ذخائر ہونے کے باعث گرین ہاؤسز گرم رکھنے کے لیے ایندھن سستا ہے، جب کہ پولینڈ میں گزشتہ تین برسوں سے توانائی کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
پولش ٹماٹر و کھیرہ پیدا کرنے والوں کی تنظیم کے آپریشنز ڈائریکٹر، لوکاش گوزدالا نے بتایا کہ روسی کھیرے کی یلغار سے مقامی پیداوار کی قیمتیں گر گئی ہیں اور کسانوں کو شدید مالی نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے فوری طور پر روسی کھیرے کی درآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مارچ 2025 میں پولینڈ میں روس سے 2,000 ٹن سے زائد کھیرے درآمد ہوئے، جن کی مالیت 27 لاکھ یورو (تقریباً 3.07 ملین ڈالر) رہی۔ یہ فروری کے مقابلے میں 2.5 گنا اور مارچ 2024 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہیں۔ پولینڈ کی کل کھیرہ درآمدات میں سے 83 فیصد روس سے آئیں، جس کے بعد پولینڈ یورپی یونین میں روسی کھیرے کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔
یورپی یونین کی روس پر توانائی پابندیاں، جو 2022 میں یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد لگائی گئی تھیں، پولش کسانوں کے لیے مہنگی توانائی اور بڑھتے ہوئے پیداواری اخراجات کا سبب بنی ہیں۔ اس کے برعکس، روسی کسان سستی گیس کے سبب اپنی مصنوعات کم قیمت پر برآمد کر رہے ہیں۔ گوزدالا کے مطابق ان کی تنظیم نے پولش وزارت زراعت اور وزارت ماحولیات سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور وہ یورپی یونین بھر میں روسی و بیلاروسی کھیرے اور ٹماٹر کی درآمد پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ دو ماہ میں کوئی فیصلہ متوقع ہے۔ روسی زراعتی نگران ادارے روس سیلخوز نادزور کے سربراہ سرگئی دانکورت نے پچھلے سال کہا تھا کہ روسی مصنوعات، خاص طور پر گرین ہاؤس سبزیاں، یورپی مصنوعات کے مقابلے میں سستی ہیں، اور جب تک یورپ امریکی مہنگی ایل این جی پر انحصار کرتا ہے، تب تک وہ عالمی منڈی میں مسابقت کھو دے گا۔ یہ صورتحال یورپی زرعی سیکٹر، خاص طور پر پولش کسانوں کے لیے بڑا معاشی چیلنج بن چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مقامی پیداوار کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔