اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

ٹرمپ انتظامیہ نے آکوس معاہدے پر نظرثانی کا آغاز کر دیا

Donald Trump

ٹرمپ انتظامیہ نے آکوس معاہدے پر نظرثانی کا آغاز کر دیا

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں طے پانے والے دفاعی معاہدے آکوس پر باقاعدہ نظرثانی شروع کر دی ہے۔ یہ معاہدہ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان طے پایا تھا جس کے تحت آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں فراہم کی جانا تھیں۔ نئی امریکی حکومت اس معاہدے کو “امریکہ فرسٹ” پالیسی کے تناظر میں جانچ رہی ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کیا یہ منصوبہ ملکی مفادات سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ اس نظرثانی سے آسٹریلیا اور برطانیہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ اس معاہدے پر اربوں ڈالر کی لاگت آنے والی ہے اور یہ دونوں ممالک کی دفاعی حکمت عملی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ آسٹریلیا نے واضح کیا ہے کہ وہ آکوس منصوبے کے لیے پُرعزم ہے اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھے گا۔ برطانوی حکومت نے بھی اسے دہائیوں کا سب سے اہم تزویراتی معاہدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تینوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور عسکری تعاون کو مضبوط کرتا ہے۔

آکوس معاہدہ سنہ دو ہزار اکیس میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کے تناظر میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے تحت آسٹریلیا کو دو ہزار بتیس سے امریکی ساختہ ورجینیا کلاس جوہری آبدوزیں فراہم کی جائیں گی، جبکہ برطانیہ اور آسٹریلیا نئی نسل کی آبدوزیں مشترکہ طور پر امریکی تعاون سے تیار کریں گے۔ اس کے علاوہ دو ہزار ستائیس سے امریکی اور برطانوی آبدوزیں آسٹریلیا کے مغربی بحری اڈے پر تعینات کی جائیں گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے بعض مشیر اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوہری آبدوزیں امریکہ کے لیے ایک نایاب اور قیمتی اثاثہ ہیں، جن کی پیداوار محدود ہے، اور ان کا دوسرے ممالک کو دینا خود امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر چین کے ساتھ کسی ممکنہ بحری تصادم کی صورتحال پیدا ہو تو ان آبدوزوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ سینیٹ کی دفاعی امور کی کمیٹی کے رکن ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کین نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آکوس معاہدہ بحرالکاہل کے خطے کو آزاد اور محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس میں کمزوری چین کے مفاد میں جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کو مزید مستحکم کرے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔

اس جائزے کا نتیجہ نہ صرف آسٹریلیا اور برطانیہ کے دفاعی منصوبوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ اعتماد کے رشتے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

Share it :