ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ایران نے حالیہ اسرائیلی حملے کے جواب میں ایک بڑا اور غیرمعمولی جوابی وار کیا ہے، جس سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ کارروائی “دفاعِ خود” کے اصولوں کے تحت کی گئی ہے، جس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کا مؤثر جواب دینا تھا۔
ایرانی فوج کے مطابق، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے مخصوص اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ اسرائیل نے فوری طور پر حملے کی نوعیت اور نقصانات کی تفصیلات جاری نہیں کیں، تاہم ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے کئی میزائلوں کو فضاء میں ہی تباہ کر دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ہنگامی بیان میں ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ایرانی کارروائی کی مذمت کرے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو خاموش نہیں رہیں گے۔”
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔ عالمی منڈیوں پر بھی اس کشیدہ صورتحال کا اثر پڑا ہے، اور تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پہلے ہی فلسطین میں صورت حال انتہائی خراب ہے اور خطے میں کئی ممالک اس تنازعے کے اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستانی سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر فہیم عباس کے مطابق “ایران کا یہ حملہ دراصل ایک واضح پیغام ہے کہ وہ خطے میں اسرائیلی بالا دستی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ حملہ اسرائیل کے اُن ممکنہ اتحادیوں کے لیے بھی انتباہ ہے جو ایران کے خلاف کسی مشترکہ کارروائی کی سوچ رکھتے ہیں۔ تاہم اگر عالمی طاقتوں نے فوری مداخلت نہ کی، تو یہ تنازعہ ایک بڑے علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔”
ڈاکٹر فہیم کا مزید کہنا تھا کہ اس کشیدگی کا اثر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا، خصوصاً پاکستان پر بھی پڑ سکتا ہے، جہاں توانائی کی قیمتیں اور سلامتی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔