روس نے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا، کابل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم
ماسکو (صداۓ روس)
روس نے افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے، یوں ماسکو دنیا کی پہلی بڑی طاقت بن گیا ہے جس نے طالبان کی حکومت کو مکمل سفارتی حیثیت دے دی ہے۔ خیال رہے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیشتر عالمی طاقتیں تاحال طالبان کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ روس کی سپریم کورٹ نے اپریل ۲۰۲۵ میں طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا، جس کے بعد پہلی بار ۲۰۰۳ کے بعد طالبان کی سرگرمیوں کو روس میں قانونی حیثیت حاصل ہوئی۔ یاد رہے کہ طالبان نے اگست ۲۰۲۱ میں امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر قبضہ کر کے ملک کا نام اسلامی امارت افغانستان رکھ دیا تھا۔
جمعرات کے روز روسی نائب وزیر خارجہ آندرے رودینکو نے افغانستان کے نئے مقرر کردہ سفیر غلام حسن کی سفارتی اسناد قبول کیں، جسے سفارتی تعلقات کے قیام کا باضابطہ اعلان سمجھا جا رہا ہے۔ جب روسی خبررساں ادارے نے پوچھا کہ آیا یہ طالبان حکومت کو مکمل تسلیم کیے جانے کے مترادف ہے تو روس کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف نے اس کی تصدیق کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ماسکو میں افغان سفارت خانے پر پہلی بار طالبان کا سیاہ و سفید پرچم لہرا دیا گیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ طالبان حکومت نے یہاں اپنی مکمل نمائندگی قائم کر لی ہے۔ اس سے قبل افغانستان کا پرانا تین رنگی پرچم (کالا، سرخ، سبز) طالبان نے حکومت میں آتے ہی ختم کر دیا تھا۔
روس کے سفیر برائے کابل دیمتری ژیرنوف نے روسیہ ٹی وی کو بتایا کہ یہ فیصلہ صدر ولادیمیر پوتن نے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی سفارش پر کیا، جس کا مقصد طالبان حکومت سے مکمل سفارتی روابط قائم کرنا اور افغان عوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک صدی قبل بھی روس نے افغانستان کی آزادی کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا، اور آج بھی ہم اسی دوستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ دنیا کی بیشتر حکومتیں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کر رہیں، تاہم وسطی ایشیائی ممالک کی جانب سے حالیہ مہینوں میں طالبان کے ساتھ تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ قازقستان نے جون ۲۰۲۴ میں طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالا، کرغزستان نے ستمبر میں اسی پالیسی کو اپنایا، جبکہ ترکمانستان نے دوبارہ ٹی اے پی آئی گیس پائپ لائن منصوبے میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ازبکستان نے بھی اگست ۲۰۲۴ میں طالبان حکومت کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
قطر میں افغان سفیر سہیل شاہین نے روس کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے “مشترکہ کام کے نئے مواقع پیدا ہوں گے” اور دیگر ممالک سے اپیل کی کہ وہ بھی ماسکو کے نقش قدم پر چلیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف خطے میں نئی سفارتی صف بندی کی علامت ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ روس عالمی سطح پر امریکی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اور اس کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو ایک اہم ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔