قازقستان میں برقع اور نقاب پر سرکاری پابندی نافذ
آستانہ (صداۓ روس)
قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف نے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے والے نقاب اور برقع پر مکمل پابندی عائد کرنے کے قانون پر دستخط کر دیے ہیں۔ حکومت کے مطابق یہ اقدام انتہا پسند مذہبی رجحانات کے پھیلاؤ کو روکنے اور عوامی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت اب کوئی بھی شخص عوامی مقامات پر چہرہ مکمل طور پر چھپانے والا لباس نہیں پہن سکے گا۔ تاہم اس قانون میں چند استثنائی مواقع بھی رکھے گئے ہیں، جن میں طبی وجوہات، شدید موسم، شہری دفاع کی ضروریات یا ثقافتی تقریبات شامل ہیں۔ قازق حکومت کا مؤقف ہے کہ ایسے “غیر ملکی مذہبی لباس” جو چہرہ چھپاتے ہیں، نہ صرف ملکی سیکولر نظام سے مطابقت نہیں رکھتے بلکہ یہ قازقستان کی روایتی اور تاریخی اقدار کے بھی خلاف ہیں۔
مارچ ۲۰۲۴ میں صدر توقایف نے نقاب کو ایک قدیم اور مسلط کردہ لباس قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لباس بعض انتہا پسند حلقوں کی طرف سے قازق خواتین پر مسلط کیا گیا ہے اور یہ ملی تشخص اور ثقافتی شناخت سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا سیاہ چہرہ چھپانے والے لباس پہننے کی بجائے، ہماری خواتین کو قومی طرز کے ملبوسات پہننے چاہئیں جو ہماری نسلی شناخت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی روایتی پوشاک کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل قازق حکومت نے اسکولوں میں سر پر اسکارف پہننے پر بھی پابندی عائد کی تھی، جسے اسکول یونیفارم کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔ قازقستان کی آبادی کا تقریباً ۷۰ فیصد حصہ مسلمان ہے، تاہم ریاست کا آئین سیکولر نوعیت کا ہے۔ قازقستان کا یہ قدم وسطی ایشیائی ہمسایہ ممالک کی پالیسیوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
ازبکستان نے ۲۰۲۳ میں برقع پر عوامی پابندی لگائی تھی۔ تاجکستان نے بھی اسی سال چہرہ چھپانے والے لباس پر پابندی عائد کی۔ کرغزستان میں ایسی ہی قانون سازی پارلیمان میں زیر بحث رہی۔ ان اقدامات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید بھی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین مذہبی برادریوں کو الگ تھلگ کرنے اور انفرادی آزادیوں کو محدود کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم قازق حکومت کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد قومی یکجہتی، سیکولر تشخص اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے، نہ کہ مذہبی آزادیوں کو سلب کرنا۔ قانون نافذ ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کے لیے نئی رہنما ہدایات اور ضوابط جاری کیے جائیں گے۔