اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

جرمنی چند ماہ میں ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے، آئی اے ای اے چیف کا انکشاف

Rafael Grossi

جرمنی چند ماہ میں ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے، آئی اے ای اے چیف کا انکشاف

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے کہا ہے کہ اگر جرمنی فیصلہ کرے تو وہ چند ماہ کے اندر اپنا ایٹمی ہتھیار تیار کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس ضروری جوہری مواد، ٹیکنالوجی اور مہارت پہلے سے موجود ہے۔ انہوں نے یہ بات پولش خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہی، جسے بدھ کے روز شائع کیا گیا۔ رافائل گروسی نے وضاحت کی کہ یہ تمام اندازے “مفروضوں پر مبنی” ہیں اور یورپی ممالک بدستور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے وابستگی کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “کوئی بھی ملک، خاص طور پر طاقتور ریاستیں، صرف ایثار کے جذبے سے فیصلے نہیں کرتیں۔” ان کے مطابق اگر دنیا میں جوہری ہتھیار عام ہو گئے تو یہ انتہائی تباہ کن صورتحال ہوگی۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ کے یہ ریمارکس ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب حالیہ دنوں امریکا اور اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کا جواز ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا بتایا گیا، حالانکہ آئی اے ای اے اور امریکی انٹیلی جنس دونوں نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ان حملوں کے ردعمل میں ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرتے ہوئے ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکال دیا۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے ایجنسی کی خاموشی کو غیر منصفانہ اور قابل مذمت قرار دیا۔

دوسری جانب یورپی نیٹو ممالک میں فوجی تیاریوں میں تیزی آ رہی ہے۔ جرمنی کی اپوزیشن جماعت کے رہنما جینس اسپان نے حال ہی میں مطالبہ کیا کہ امریکی ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کافی نہیں رہا، اس لیے جرمنی کو برطانیہ یا فرانس کے جوہری اسلحے تک رسائی یا کسی یورپی جوہری تحفظاتی نظام میں شمولیت حاصل کرنی چاہیے۔ اسپان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک خودمختار یورپی ایٹمی چھتری اسی وقت موثر ہو سکتی ہے جب جرمنی کو اس کی قیادت یا نگرانی میں کردار دیا جائے۔

روسی حکومت نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ کسی یورپی نیٹو ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے، اور مغربی رہنماؤں پر الزام لگایا ہے کہ وہ خوف کی فضا پیدا کرکے اپنے دفاعی بجٹ بڑھا رہے ہیں اور عوامی معیارِ زندگی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

Share it :