تجزیہ: اشتیاق ہمدانی – ماسکو
روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازعہ بظاہر ایک دو طرفہ جنگ معلوم ہوتی ہے، لیکن جب اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک گہرے عالمی سیاسی و عسکری مفادات کا ٹکراو ہے، جس میں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی بھی براہِ راست ملوث ہیں۔ مغربی دنیا اس جنگ کو صرف “روس کی یوکرین پر جارحیت” کے طور پر پیش کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس اسے اپنی سلامتی، خودمختاری اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ سمجھتا ہے۔ ماسکو میں رہ کر روسی عوام، اہلِ دانش اور حکومتی نمائندوں سے بات چیت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ تنازعہ صرف یوکرین تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی سازش اور مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے۔
روس کے نزدیک اس جنگ کی بنیادی وجہ نیٹو کی مشرق کی طرف مسلسل توسیع ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی رہنماؤں نے روس کو زبانی یقین دہانیاں کرائی تھیں کہ نیٹو اپنی حدود کو مشرقی یورپ کی طرف نہیں بڑھائے گا۔ لیکن بعد کے برسوں میں نیٹو نے نہ صرف مشرقی یورپ میں اپنے اثرات بڑھائے بلکہ کئی سابقہ سوویت ریاستوں کو بھی اپنی رکنیت میں شامل کر لیا۔ روس کی سرحد کے قریب نیٹو افواج کی موجودگی کو ماسکو براہِ راست خطرہ سمجھتا ہے۔
یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو روس نے اپنی “ریڈ لائن” قرار دیا تھا، اور بارہا عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر ایسا ہوا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ روسی حکومت کا مؤقف ہے کہ یوکرین کی نیٹو رکنیت نہ صرف روسی دفاعی پالیسی کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بھی بگڑ جائے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے متعدد بار کہا کہ وہ کسی ہمسایہ ملک میں نیٹو میزائلوں اور اڈوں کی موجودگی برداشت نہیں کریں گے۔
2014 میں یوکرین میں میدان انقلاب (Maidan Revolution) کے بعد ایک مغرب نواز حکومت کا قیام عمل میں آیا، جسے روس نے “امریکی حمایت یافتہ بغاوت” قرار دیا۔ اس کے فوراً بعد روس نے کریمیا کو یوکرین سے علیحدہ کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ روسی مؤقف یہ ہے کہ کریمیا کے عوام نے ایک آزاد ریفرنڈم میں بھاری اکثریت سے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا۔ مغربی دنیا نے اس عمل کو غیر قانونی قبضہ کہا، لیکن روس کا کہنا ہے کہ یہ اس خطے کے عوام کی آزاد مرضی کا فیصلہ تھا، کیونکہ کریمیا تاریخی طور پر روس کا حصہ رہا ہے۔
اسی طرح مشرقی یوکرین کے علاقوں – ڈونیتسک اور لوہانسک – میں روسی نژاد آبادی کی اکثریت ہے جو یوکرینی حکومت سے ناراض تھی۔ ان علاقوں میں کئی سالوں سے یوکرینی افواج اور علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔ روس کا دعویٰ ہے کہ ان علاقوں کے عام شہریوں پر یوکرینی فوج مظالم ڈھا رہی تھی، جن کی حفاظت کے لیے روس نے ان علاقوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کیا اور بعد میں انہیں روس میں شامل کر لیا۔ روسی حکومت کے نزدیک یہ مداخلت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تھی۔
جہاں ایک طرف روس یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ہم نسل افراد کی حفاظت اور قومی سلامتی کے لیے کارروائی کر رہا ہے، وہیں امریکہ اور مغربی اتحادی اس عمل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر روس پر سخت معاشی پابندیاں لگا چکے ہیں۔ ان پابندیوں نے روسی معیشت پر اثر ضرور ڈالا، مگر روس نے اپنی خود کفالت کی پالیسی اپناتے ہوئے نہ صرف اپنی پیداوار اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی بلکہ چین، بھارت، ایران، ترکی اور دیگر غیر مغربی ممالک سے معاشی تعاون کو وسعت دی۔
روس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کو ہتھیار، تربیت، انٹیلی جنس معلومات اور مالی امداد دے کر اس تنازعے کو طول دے رہے ہیں۔ یوکرینی حکومت اب مغربی مدد کے بغیر نہ صرف کمزور ہو چکی ہوتی بلکہ امن کی طرف مائل بھی ہو چکی ہوتی۔ ماسکو کے نزدیک یوکرین دراصل ایک “پراکسی میدان” بن چکا ہے جہاں مغربی طاقتیں روس کو گھیرنے اور کمزور کرنے کے لیے ایک لمبی جنگ چھیڑ چکی ہیں۔
روس کی سفارتی زبان میں اب “امن” کا مطلب صرف جنگ بندی نہیں بلکہ ایسے معاہدات اور ضمانتیں ہیں جو اس کی جغرافیائی سلامتی، خودمختاری اور مستقبل میں نیٹو کی توسیع کو روکنے پر مبنی ہوں۔ روسی حکومت کسی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کرے گی جس میں اس کے تحفظات کو نظر انداز کیا جائے۔ روس کے عوام بھی اب اس مؤقف کے ساتھ کھڑے ہیں اور مغرب کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں۔
میرا زاتی طور پر نکتہ نظر یہ ہے کہ ہمیں صرف مغربی میڈیا کے یکطرفہ بیانیے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ بطور پاکستانی صحافی، جب میں نے روسی مؤقف کو براہِ راست جاننے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ یہ تنازعہ صرف جغرافیہ یا زمین کا نہیں بلکہ “عالمی طاقت کے توازن” کا ہے۔ روس ایک بار پھر عالمی اسٹیج پر باوقار طاقت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مغرب اس اُبھار کو روکنے کے لیے ہر حد تک جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غیرجانبدار ملک کو چاہئے کہ وہ ثالثی اور امن کی پالیسی اپنائے، مگر دونوں طرف کے مؤقف کو سن کر ایک حقیقت پسندانہ اور متوازن رائے قائم کرے۔ پاکستانی صحافیوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی تنازعات میں صرف ترجمہ شدہ مغربی خبروں کو نشر نہ کریں، بلکہ میدان میں جا کر اصل صورتحال جانیں، دیکھیں اور عوام کو ایک غیر جانبدار سچ سے آگاہ کریں۔