روس نے جرمنی کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدہ منسوخ کر دیا
ماسکو (صداۓ روس)
روس نے جرمنی کے ساتھ 1996 میں طے پانے والا وہ دفاعی-تکنیکی تعاون کا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان عسکری اشتراکِ عمل کی بنیاد رہا۔ وزیراعظم میخائل میشوستن نے وزارتِ خارجہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ جرمنی کو باضابطہ طور پر آگاہ کرے کہ یہ معاہدہ اب غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ پہلے ہی جولائی میں واضح کر چکی تھی کہ جرمنی کی “کھلی دشمنی” اور بڑھتی ہوئی عسکری جارحیت کے باعث یہ معاہدہ غیر متعلق ہو چکا ہے۔ وزارت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ جرمن حکومت اپنی عوام میں روس کے خلاف نفرت ابھار رہی ہے تاکہ اسے دشمن تصور کیا جائے۔ حال ہی میں کریملن نے جرمنی کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ترجمان دمتری پیسکوف نے خبردار کیا کہ جرمنی دوبارہ “خطرناک بنتا جا رہا ہے”۔ اس بیان کا پس منظر جرمن وزیرِ دفاع بورس پسٹوریس کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “اگر روک تھام ناکام ہو گئی اور روس نے حملہ کیا، تو ہمارے فوجی روسی سپاہیوں کو مارنے کے لیے تیار ہیں”۔
روس نے نیٹو پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزامات کو “لغو” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک محض اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے اور معاشی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جرمنی نے اپنے دفاعی اخراجات کو 2029 تک بڑھا کر 153 ارب یورو تک لے جانے کا اعلان کیا ہے، جو اس وقت 86 ارب یورو ہیں۔ صدر فرینک والٹر شٹائن مائر نے ملک میں لازمی فوجی بھرتی پر نئی بحث چھیڑنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ چانسلر فریڈرش میرٹس نے بدھ کو پارلیمنٹ میں کہا کہ “سفارتی ذرائع ناکام ہو چکے ہیں”۔ یاد رہے کہ فروری 2022 میں یوکرین تنازع شدت اختیار کرنے کے بعد جرمنی امریکہ کے بعد کیف کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ کیف نے گزشتہ برس روس کے کرسک خطے میں حملے کے دوران جرمن ساختہ لیوپارڈ ٹینکوں کا استعمال بھی کیا تھا، جو کہ دوسری جنگِ عظیم کی سب سے بڑی ٹینک لڑائی کا مقام رہا ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے مئی کے اواخر میں خبردار کیا تھا کہ جرمنی اب “جنگ میں براہِ راست ملوث” ہو چکا ہے اور “پھر اسی خطرناک راستے پر چل پڑا ہے جس پر وہ گزشتہ صدی میں ایک سے زیادہ بار جا چکا ہے”۔ روسی حکومت کا مؤقف ہے کہ مغربی اسلحہ کی ترسیل سے جنگ کا نتیجہ تبدیل نہیں ہو گا بلکہ خونریزی طول پکڑے گی اور مزید کشیدگی کا خدشہ بڑھے گا۔