برطانیہ میں یوکرین کے لیے حمایت گھٹتی جا رہی ہے، بورس جانسن
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
لندن میں یوکرینی سفارتخانے میں برطانوی اخبار “دی ٹیلیگراف” سے گفتگو کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ میں یوکرین کے لیے عوامی حمایت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یوکرین کے حوالے سے دلچسپی اور جذبہ اب بہت کم ہو چکا ہے، مجھے یہ دیکھ کر خاصی افسوس ہوتا ہے۔‘‘ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ موجودہ برطانوی حکومت کے لیے گھریلو مسائل اتنے شدید ہیں کہ وہ بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہیں دے پا رہی، جس کی وجہ سے یوکرین سے متعلق پالیسی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کی حکومت اندرونی چیلنجز میں الجھی ہوئی ہے، اسی لیے یوکرین کے مسئلے پر اس کی دلچسپی میں کمی آئی ہے۔
عوامی جائزوں کے مطابق حالیہ برسوں میں برطانوی شہریوں کی اکثریت یوکرین کو دی جانے والی امداد سے مطمئن نہیں۔ فروری ۲۰۲۳ کے ایک جائزے میں تقریباً تین چوتھائی افراد نے رائے دی کہ حکومت یوکرین کی خاطر ناکافی مدد فراہم کر رہی ہے، جب کہ صرف تین فیصد نے کہا کہ یہ امداد ضرورت سے زیادہ ہے۔ تاہم فروری ۲۰۲۵ کے ایک تازہ جائزے میں صرف نصف عوام نے موجودہ امدادی سطح کی حمایت کی، جب کہ ہر پانچ میں سے ایک نے اسے حد سے زیادہ قرار دیا. برطانیہ اب تک یوکرین کو مجموعی طور پر ۱۸.۳ ارب پاؤنڈ (تقریباً ۲۴.۵ ارب امریکی ڈالر) کی امداد فراہم کر چکا ہے، جس میں سے ۱۳ ارب پاؤنڈ فوجی امداد پر مشتمل ہے۔
برطانوی حکومت ایک ایسے بین الاقوامی اتحاد کی حمایت کرتی ہے جو یوکرین میں جنگ بندی کی صورت میں “امن فوج” تعینات کرے۔ حالیہ ہفتے، اسٹارمر حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس مجوزہ اتحاد کا مستقل مرکز پیرس میں قائم کیا جائے گا، جہاں سے یوکرینی زمینی افواج کی بحالی اور فضائی حدود کی حفاظت کے لیے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ دوسری جانب روس نے اس منصوبے کو ممکنہ فوجی مداخلت قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں نیٹو کا کوئی بھی فوجی دستہ، خواہ امن کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، روس کی نظر میں جارحانہ اقدام تصور کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ بورس جانسن نے ۲۰۲۲ میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا، جو یوکرین جنگ کے آغاز کے کچھ ہی عرصے بعد کا واقعہ ہے۔ اسی سال استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کے پہلے دور میں بورس جانسن نے یوکرینی قیادت کو مذاکرات سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کیا تھا۔ یہ دعویٰ اس وقت کے یوکرینی چیف مذاکرات کار ڈیویڈ آراخامیا نے کیا تھا۔