پاکستان میں مچھلی فارمنگ ترقی کی راہ پر گامزن، چیلنجز بھی موجود
اسلام آباد (صداۓ روس)
پاکستان میں مچھلی فارمنگ یا ایکیو کلچر کو حکومتی سطح پر توجہ دی جا رہی ہے، جس سے غذائی تحفظ، روزگار کے مواقع اور برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔ اس صنعت کے فروغ کے لیے سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں میں متعدد اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سب سے نمایاں اقدام کراچی کے کُورنگی مچھلی ہاربر میں 120 ایکڑ پر محیط جدید ایکیو کلچر پارک ہے، جس پر تقریباً 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ اس پارک کی سالانہ پیداوار 360 ٹن سے لے کر 1,200 ٹن تک ہو گی، اور اس سے سمندری غذا کی برآمدات میں اضافہ ممکن ہے. اس منصو بہ کے تحت وفاقی وزیر بحری امور جُنید انور چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پانی کی صورت حال ایکیو کلچر کے لیے انتہائی سازگار ہے، اور اس ماڈل کو بلوچستان میں بھی متعارف کروایا جائے گا۔ حکومت نے نجی شراکت داری کے تحت اس پارک کو اعلیٰ معیار کا بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے. پنجاب حکومت نے بھی تھےرجائزر شپ فارمنگ منصوبہ شروع کیا ہے، جس میں 3,000 ایکڑ پر مبنی جھینگے کی فارمنگ** اور **مولتان کے اضلاع میں قدراتی زنجیر کے مراکز قائم کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کی کل لاگت 50 ارب روپے ہوگی، جس سے نہ صرف کروڑوں روپوں کی خریداری بلکہ کئی ہزار افراد کو ملازمتیں میسر آئیں گی
تاہم، ماہرین کے مطابق صنعت ابھی چند بنیادی مسائل کی وجہ سے ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ فیزل آباد یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر عرفہ بن طاہر نے کہا کہ تکنیکی، مالی اور انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے پیداوار محدود ہے۔ جدید فارمنگ کے لیے تربیت، صحت و بیماریوں کے انتظام اور مالی اعانت ناگزیر ہیں. ایک اور ماہر محمد جُنید وتو کے مطابق پاکستان میں ایکیو کلچر میں نہ صرف روزگار کے وسیع مواقع ہیں بلکہ غذائی تحفظ پر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اسے عالمی معیار کی صفائی، بحری ماحولیات کے تحفظ اور عالمی برآمدی معیار کے مطابق بنانا ضروری ہے . پاکستان میں تقریباً 12,000 مچھلی فارم موجود ہیں، جن میں سے 49 ہزار ہیکٹر میں سندھ، 10،500 ہیکٹر پنجاب میں ہیں۔ فارمنگ میں کارپ، ٹلاپیا، ٹروٹ اور دیگر اقسام دستیاب ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے “اِن-پونڈ ریس وے سسٹم” نے پیداوار کو بڑھانے میں مدد کی ہے، لیکن اس کو وسیع پیمانے پر اپنانے کے لیے مزید کوشش درکار ہیں.
حکومت کی جانب سے تربیتی مراکز، ہچری، فیڈ مل اور برآمدی مارکیٹنگ کی سہولتوں پر کام جاری ہے۔ سندھ حکومت نے عالمی بینک کے تعاون سے 75 فیصد اسکیم کا اعلان کیا ہے، جس سے 10 افراد کے گروپس کو مالیاتی مدد ملے گی. کراچی چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کو بھی ایکوی کلچرل شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا رہی ہے. اگر یہ اقدامات مؤثر طور پر عملیجامہ پہنا دیے جائیں تو پاکستان اپنی سمندری حدود کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی مارکیٹ میں مچھلی اور سمندری غذائوں کا ایک نمایاں سپلائر بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے مستقل پالیسی، جدید فنون، حفاظتی معیارات اور تحقیق و ترقی کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔