پابندیاں ہمیں اب متاثر نہیں کرتیں، روس کو مدافعت حاصل ہوچکی ہے، کریملن
ماسکو(صداۓ روس)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین جنگ میں جنگ بندی کے لیے مقررہ مدت کو کم کرتے ہوئے روس کو نئی پابندیوں کی دھمکی دی گئی ہے، تاہم روس نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پابندیوں کا عادی ہوچکا ہے اور اب ان سے متاثر نہیں ہوتا۔ صدر ٹرمپ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ روس کو یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کے لیے دی گئی پچاس دن کی مہلت اب کم کرکے صرف دس یا بارہ دن کردی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظار کی کوئی وجہ نہیں، اگر روس نے تعاون نہ کیا تو نئی پابندیاں اور ممکنہ طور پر محصولات بھی عائد کیے جائیں گے، خاص طور پر ان ممالک پر جو روسی تیل خریدتے ہیں۔ اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے بدھ کے روز کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا کہ روس کو اب ان پابندیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ان کے مطابق ہم کافی عرصے سے بھاری پابندیوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب ہمارے اندر ایک قسم کی مدافعت پیدا ہوچکی ہے۔ پیسکوف نے مزید کہا کہ ماسکو صدر ٹرمپ کے بیانات کو نوٹ کر رہا ہے، تاہم کسی گھبراہٹ کا شکار نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ روس یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے پرعزم ہے، لیکن وہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ اس کے مفادات کو تسلیم کیا جائے۔
روس کا مؤقف ہے کہ کسی بھی تصفیے میں یوکرین کی غیر جانبداری، فوجی صلاحیتوں میں کمی، اور زمینی حقائق کو تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ روس اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پابندیوں کا شکار ملک ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے روس پر دس ہزار سے زائد پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ ان پابندیوں کا آغاز 2014 میں یوکرین بحران کے بعد ہوا تھا، اور 2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد ان میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روس کو پابندیوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، ورنہ وہ سب کچھ کھو سکتا ہے۔ ان کے مطابق پابندیاں اکثر ان ممالک کے خلاف پلٹ جاتی ہیں جو انہیں عائد کرتے ہیں۔