خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

ٹرمپ جان گئے وہ اتنے طاقتور نہیں جتنا خود کو سمجھتے تھے، میڈیا

Trump

ٹرمپ جان گئے وہ اتنے طاقتور نہیں جتنا خود کو سمجھتے تھے، میڈیا

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان تین گھنٹے طویل مذاکرات بالآخر کسی بڑی پیش رفت کے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ صدر ٹرمپ روانگی سے قبل واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ وہ اس ملاقات سے یوکرین میں جنگ بندی کی توقع رکھتے ہیں، تاہم مذاکرات کے بعد نہ تو کوئی امن معاہدہ طے پایا اور نہ ہی جنگ بندی کا اعلان سامنے آیا۔ مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے محض یہ کہا کہ بات چیت “انتہائی مثبت اور تعمیری” رہی۔ پوتن نے اس موقع پر الزام عائد کیا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات تباہی کی طرف گئے، لیکن ٹرمپ کم از کم براہِ راست مکالمے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کی اس بات کی بھی تائید کی کہ اگر ٹرمپ 2022 میں وائٹ ہاؤس میں موجود ہوتے تو یوکرین کی جنگ کبھی شروع ہی نہ ہوتی۔

دوسری جانب ٹرمپ پریس کانفرنس میں غیر معمولی حد تک خاموش دکھائی دیے اور تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ انہوں نے محض اتنا کہا کہ اہم موضوعات پر پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ان موضوعات کی وضاحت نہیں کی۔ اس کے باوجود انہوں نے پوتن کو امن کا خواہاں قرار دیتے ہوئے کہا کہ روسی صدر بھی اتنا ہی امن چاہتے ہیں جتنا وہ خود۔ ماہرین کے مطابق یوکرین جنگ کے بنیادی اختلافات اس وقت ناقابلِ عبور ہیں۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی کسی بھی زمینی علاقے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، جبکہ پوتن ڈونباس، خیرسون اور زاپورژیا پر مکمل قبضے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ زیلنسکی مغربی ممالک کی سلامتی ضمانتیں چاہتے ہیں، لیکن پوتن یوکرین کے مستقبل میں مغربی مداخلت کے سخت مخالف ہیں۔ یہی تضادات مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے کافی تھے۔ یوں الاسکا سمٹ سے کسی فوری نتیجے کی توقع پوری نہ ہوسکی۔ اگرچہ ٹرمپ اس بات پر اطمینان کر سکتے ہیں کہ بات چیت منقطع نہیں ہوئی، تاہم جنگ بندی یا امن معاہدہ کی امیدیں فی الحال مزید مؤخر ہوگئی ہیں۔

شئیر کریں: ۔