چین نے روسی تیل کی درآمدات میں مزید اضافہ کر دیا، سی این این
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
سی این این کے مطابق چینی آئل ریفائنریز نے روسی خام تیل کی خریداری میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بھارت نے امریکہ کی جانب سے تجارتی دباؤ اور بھاری ٹیرف کے باعث درآمدات کم کر دی ہیں۔ روس پر مغربی پابندیوں کے بعد 2022 میں چین اور بھارت اس کے سب سے بڑے خریدار بن گئے تھے۔ تاہم حالیہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کی روسی تیل سے وابستہ تجارت کے جواب میں 25 فیصد نیا ٹیرف عائد کر دیا، جو 27 اگست سے نافذ ہوا۔ اس فیصلے کے بعد بھارت کی سرکاری ریفائنریز نے عارضی طور پر روسی تیل کی درآمدات روک دیں، جو اس کے قومی تیل کے ذخائر کا تقریباً 36 فیصد حصہ تھیں۔ تجزیہ کار میو یو شو کے مطابق چین کی سرکاری و نجی ریفائنریز نے اکتوبر کے لیے تقریباً 13 کارگو روسی خام تیل کے خریدے ہیں، جبکہ نومبر کے لیے بھی دو کارگو یقینی بنائے گئے ہیں۔ یہ سپلائیز روس کے آرکٹک اور بلیک سی بندرگاہوں سے آئیں گی، جو عموماً بھارت کے لیے مخصوص تھیں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ چین یہ موقع اس لیے لے رہا ہے کیونکہ روسی تیل مشرقِ وسطیٰ کے مقابلے میں فی بیرل تین ڈالر سستا ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے چین پر بھی روسی تیل کی خریداری پر ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی، لیکن حالیہ بیان میں کہا کہ فی الحال ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ دوسری طرف بھارتی آئل کمپنیاں خاموش رہیں، تاہم بلومبرگ اور رائٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ بھارت نے مختصر وقفے کے بعد روسی تیل کی خریداری دوبارہ شروع کر دی ہے اور انڈین آئل و بھارت پٹرولیم نے ستمبر اور اکتوبر کے لیے کارگو یقینی بنا لیے ہیں۔ بھارت نے امریکی ٹیرف کو ’’غیر منصفانہ، بلاجواز اور غیر معقول‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی توانائی کی سلامتی کو سیاست پر ترجیح دے گا۔
ادھر ماسکو میں ایک بین الحکومتی اجلاس کے دوران روسی نائب وزیراعظم ڈینس مانتوروف نے تصدیق کی کہ روس بھارت کو تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے تین روزہ دورے میں روسی قیادت سے ملاقات کے دوران تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر زور دیا۔ دونوں ممالک نے 2030 تک باہمی تجارت کو 100 ارب ڈالر تک پہنچانے کے ہدف کی توثیق بھی کی۔