خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

یورپی یونین کا روسی تیل و گیس خریداری پر چین کے خلاف ممکنہ پابندیوں پر غور

EU

یورپی یونین کا روسی تیل و گیس خریداری پر چین کے خلاف ممکنہ پابندیوں پر غور

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یورپی یونین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ چین کے خلاف ثانوی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے، کیونکہ بیجنگ روسی تیل اور گیس کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ بات نام ظاہر نہ کرنے والے ذرائع نے بتائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی حکام نے اتوار کو اس معاملے پر ابتدائی بات چیت کی۔ ذرائع کے بقول یہ گفتگو ابھی ’’انتہائی ابتدائی مرحلے‘‘ میں ہے۔ یورپی یونین اس سلسلے میں کسی بھی عملی اقدام سے قبل امریکہ کی مکمل حمایت اور واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگی چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے یورپی عہدیدار پیر کے روز امریکہ پہنچے جبکہ امریکی وزیرِ توانائی کرس رائٹ رواں ہفتے برسلز کا دورہ کریں گے۔

روس اور یوکرین کے تنازع کے آغاز (فروری 2022) کے بعد چین روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے۔ رواں برس یورپی یونین نے چند چینی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگائی تھیں جن پر الزام تھا کہ وہ روسی فوجی صنعت کی معاونت کرتی ہیں۔ بیجنگ نے ان اقدامات کو ’’غیر معقول‘‘ قرار دیا اور یورپی یونین پر ’’دوہرے معیار‘‘ اپنانے کا الزام لگایا۔ چین نے زور دیا کہ وہ دوہری استعمال کی اشیا پر سختی سے کنٹرول کرتا ہے اور تنازع میں کسی فریق کو مہلک ہتھیار فراہم نہیں کیے۔ امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے بھی اتوار کو کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین ان ممالک پر مزید پابندیاں عائد کر سکتے ہیں جو روسی تیل خرید رہے ہیں۔

بیجنگ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات ہر حال میں پوری کرے گا اور تجارتی جنگوں کے نقصانات سے خبردار کر چکا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر روسی تیل کی درآمدات جاری رکھنے کے باعث درآمدی محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، جسے نئی دہلی نے ’’غیر منصفانہ اور غیر معقول‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ بھارتی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے دو ٹوک کہا تھا کہ بھارت اپنی اقتصادی ترجیحات کی بنیاد پر روسی تیل خریدتا رہے گا، کسی بیرونی دباؤ پر نہیں۔ اسی دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے حالیہ چار روزہ دورۂ چین میں مغرب کو خبردار کیا کہ وہ چین اور بھارت جیسی بڑی معیشتوں سے ’’غیر قابل قبول لہجے‘‘ میں بات نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ اور نئی دہلی پر دباؤ کا مقصد ان کی اقتصادی ترقی کو سست کرنا ہے۔

شئیر کریں: ۔