آسٹریلیا کا ایک ارب ڈالر سے زائد لاگت کے آبدوز ڈرونز بنانے کا منصوبہ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی بحری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ’’گوسٹ شارک‘‘ نامی جدید خودکار آبدوز ڈرونز کے بیڑے پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر (1.7 ارب آسٹریلوی ڈالر) خرچ کرے گا۔ یہ منصوبہ ملک کے اس بڑے فوجی ڈھانچے کا حصہ ہے جس کا مقصد بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے۔
آسٹریلوی وزیر دفاع رچرڈ مارلس نے بدھ کے روز کہا کہ ’’گوسٹ شارک‘‘ آبدوز ڈرونز آسٹریلیا کے بحری جہازوں اور روایتی آبدوزوں کی صلاحیتوں کو مزید تقویت دیں گے اور انہیں زیادہ ’’مہلک اور مؤثر‘‘ بنائیں گے۔ ان کے بقول: ’’یہ رائل آسٹریلین نیوی کے لیے ایک نہایت اہم اور تاریخی قدم ہے۔‘‘ مارلس نے مزید کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آج آسٹریلیا کو سب سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک اسٹریٹجک صورتحال کا سامنا ہے، اور یہی پس منظر اس پروگرام کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
آسٹریلوی حکومت نے اعلان کیا کہ اس نے اینڈریل آسٹریلیا نامی کمپنی کے ساتھ پانچ سالہ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت یہ ڈرونز مقامی سطح پر تیار اور برقرار رکھے جائیں گے۔ حکام کے مطابق یہ دنیا کی سب سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی ہے، جس میں طویل فاصلے طے کرنے اور دشمن کی نظر سے اوجھل رہنے کی صلاحیت موجود ہوگی۔ وزیر دفاعی صنعت پیٹ کونرائے نے کہا کہ درجنوں ’’گوسٹ شارک‘‘ ڈرونز آسٹریلیا میں تیار کیے جائیں گے اور مستقبل میں اتحادی ممالک کو برآمد کرنے کے مواقع بھی موجود ہوں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس پروگرام کے تحت پہلے ڈرونز 2026 کے آغاز میں بحری بیڑے میں شامل کر دیے جائیں گے۔
آسٹریلیا کی دفاعی سائنس اور ٹیکنالوجی ایجنسی کے مطابق خودکار ٹیکنالوجی کا دفاعی ڈھانچے میں شامل ہونا لازمی ہے کیونکہ ملک کی شمالی سمندری حدود تقریباً 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں، لیکن آبادی نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے ان کی نگرانی مشکل ہے۔ دوسری جانب آسٹریلیا نے برطانیہ اور امریکا کے ساتھ مشترکہ آکس معاہدے کے تحت آئندہ تین دہائیوں میں ایٹمی توانائی سے چلنے والی اسٹیلتھ آبدوزیں بھی تیار کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ تاہم امریکا میں اس معاہدے پر تنقید سامنے آئی ہے کہ واشنگٹن اپنی بحریہ کے لیے آبدوزوں کی کمی کے باوجود آسٹریلیا کو یہ ٹیکنالوجی کیوں فراہم کرے۔ اسی تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس معاہدے کا ازسرِ نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اسے اپنی ’’امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی کے مطابق بنایا جا سکے۔