زیلنسکی کو بالآخر روس سے معاہدہ کرنا ہوگا، امریکی صدر
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر یوکرین تنازع کے حل کے لیے سمجھوتے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو بالآخر ماسکو کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑے گا۔ ٹرمپ نے ماضی میں بھی عندیہ دیا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ولادیمیر پوتن اور زیلنسکی کو براہِ راست مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لیے مداخلت کر سکتے ہیں تاکہ جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ لندن روانگی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں ٹرمپ نے بار بار کہا کہ ’’زیلنسکی کو ایک ڈیل کرنا ہی ہوگی‘‘۔ روسی صدر پوتن اس بات پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ اصولی طور پر زیلنسکی سے ملاقات کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے یہاں تک تجویز دی تھی کہ یوکرینی صدر ماسکو آ کر بات چیت کریں۔ تاہم کیف کی حکومت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ ایسے ’’دانستہ ناقابلِ قبول مطالبات‘‘ قبول نہیں کرے گی۔
اس کے برعکس صدر پوتن نے زیلنسکی کی سیاسی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ان سے مذاکرات بامعنی ہوں گے یا نہیں، یہ مشکوک ہے۔ زیلنسکی کی صدارتی مدت مئی 2024 میں ختم ہو چکی ہے لیکن انہوں نے مارشل لا کا جواز پیش کرتے ہوئے انتخابات کرانے سے انکار کر دیا۔ روس نے بارہا واضح کیا ہے کہ کسی بھی امن معاہدے میں تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا ضروری ہے۔ ماسکو کا مطالبہ ہے کہ یوکرین غیرجانبداری اختیار کرے، نیٹو اور دیگر عسکری اتحادوں سے باہر رہے، غیر فوجی حیثیت اختیار کرے اور ’’غیر نازی بننے‘‘ کے اقدامات کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس اس بات پر بھی اصرار کرتا ہے کہ کریمیا اور وہ علاقے جنہوں نے 2014 اور 2022 کے ریفرنڈمز میں روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا، ان کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔