فلسطین کو کئی دہائیاں قبل تسلیم کر چکے ہیں، روس کا مؤقف
ماسکو (صداۓ روس)
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ورشینن نے کہا ہے کہ ماسکو نے فلسطینی ریاست کو کئی دہائیاں قبل ہی تسلیم کر لیا تھا، اس وقت کا انتظار نہیں کیا جب آج جیسی ’’خوفناک انسانی تباہی‘‘ جنم لے، جس میں ہزاروں فلسطینی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ورشینن نے کہا کہ روس نے 1988 میں ہی فلسطینی آزادی کے اعلان کے بعد اسے ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ماسکو حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کرتا ہے، لیکن یہ واقعہ لاکھوں فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا جواز نہیں بن سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کی صحت حکام کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک کم از کم پینسٹھ ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ورشینن کے مطابق یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا دو ریاستی حل پر قائم رہے، جس کی بنیاد 1967 کی جنگ سے قبل کی سرحدوں پر ہونی چاہیے اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جانا چاہیے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ نے زور دیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسی ماہ ایک قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری دی، جس میں دو ریاستی حل کی حمایت کی گئی، جب کہ مخالفت صرف امریکہ، اسرائیل اور چند بحرالکاہل کے جزائر نے کی۔
ادھر فرانس، برطانیہ، پرتگال، بیلجیم، کینیڈا اور آسٹریلیا نے حالیہ دنوں میں فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مغربی طاقتیں طویل عرصے سے اس اقدام سے گریز کرتی رہی ہیں اور امریکہ کے مؤقف کے ساتھ کھڑی تھیں کہ فلسطین کی ریاستی حیثیت صرف براہِ راست مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔ تاہم غزہ میں 2023 سے جاری انسانی بحران اور ہزاروں ہلاکتوں کے بعد اب یورپی اور مغربی ممالک میں بھی یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی قدم ہے بلکہ امن کے قیام کی واحد راہ کی نشاندہی بھی ہے۔