جنگ ختم ہوتے ہی صدارت چھوڑنے کو تیار ہوں، ولادیمیر زیلنسکی کا اعلان
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کے ساتھ جنگ ختم ہوتے ہی وہ صدارت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ زیلنسکی نے یہ بیان امریکی جریدے ایکسيوس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دیا، جو جمعرات کے روز شائع ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد اقتدار میں رہنا نہیں بلکہ جنگ کا خاتمہ ہے۔ زیلنسکی کی صدارتی مدت مئی 2024 میں ختم ہو چکی ہے تاہم انہوں نے مارشل لا کے نفاذ کے باعث نہ تو مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور نہ ہی نئے انتخابات کرانے کا۔ روس مسلسل یہ مؤقف اختیار کر رہا ہے کہ زیلنسکی کے پاس اب حکومت کرنے کا آئینی جواز موجود نہیں۔ انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر جنگ بندی یا عارضی صلح ہو تو کیا وہ انتخابات کرائیں گے؟ تو صدر زیلنسکی نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں وہ دوبارہ صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ ملک کے اندر زیلنسکی پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اختیارات کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ رہے ہیں اور پارلیمانی نگرانی کو کمزور کر رہے ہیں۔ نقادوں کے مطابق انہوں نے آزاد آوازوں کو بھی سائیڈ لائن کر دیا ہے، جن میں سابق فوجی سربراہ ویلےری زالُژنئی بھی شامل ہیں۔ زالُژنئی اس وقت یوکرین کے برطانیہ میں سفیر ہیں اور انہیں آئندہ صدارتی امیدوار کے طور پر ایک مضبوط حریف سمجھا جا رہا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے اگست میں رپورٹ کیا تھا کہ زالُژنئی سیاسی میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا بھی یوکرین میں بڑھتی ہوئی غیر جمہوری روش پر سوال اٹھا رہا ہے۔ برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز نے جولائی میں لکھا تھا کہ زیلنسکی اور ان کے ساتھی مارشل لا کے تحت حاصل غیر معمولی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ناقدین کو دبانے اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔
روس بھی یہی الزام عائد کرتا رہا ہے کہ کیف حکومت آمرانہ طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ زیلنسکی مارشل لا کو طول دے کر انتخابات سے گریز کر رہے ہیں تاکہ اقتدار پر قابض رہ سکیں۔ روسی حکام نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ زیلنسکی کی مدتِ صدارت ختم ہونے کے بعد ان کی جانب سے کیے گئے کسی بھی امن معاہدے کو مستقبل میں کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔