امریکی صدر کی پیدائشی شہریت کے قانون کو دوبارہ ختم کرنے کوشش
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پیدائشی شہریت کے معاملے پر اپنے متنازع صدارتی حکم نامے کے خلاف نچلی عدالتوں کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد عدالتِ عظمیٰ سے اس حکم کی آئینی حیثیت پر نظرثانی کرانا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے “سی این این” کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں نے صدر اور ان کی انتظامیہ کی ایک نہایت اہم پالیسی کو کالعدم قرار دے دیا ہے، جس سے امریکی سرحدی سلامتی بھی متاثر ہوئی ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان فیصلوں نے بغیر کسی قانونی جواز کے ایسے لاکھوں افراد کو امریکی شہریت کا حق دے دیا ہے جو اس کے اہل نہیں تھے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے، جس میں پیدائشی شہریت کو محدود کر دیا گیا تھا۔ اس حکم کے تحت امریکی شہریت صرف ان بچوں کو دی جانی تھی جن کے والدین قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہوں۔ غیر قانونی طور پر مقیم والدین کے بچوں کو اس شہریت کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ حکم امریکی شہریت کے “اصل مفہوم اور وقار” کو بحال کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکی آئین کی چودھویں ترمیم سے متصادم ہے، جو امریکہ میں پیدا ہونے والے ہر فرد کو شہریت کا حق دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ایک بڑے آئینی اور قانونی مباحثے کو جنم دے گا، جس کے دور رس نتائج امریکہ کی امیگریشن پالیسی اور شہری حقوق پر پڑ سکتے ہیں۔