برطانیہ میں کزن میرج کے ’فوائد‘ کے بیان پر تنقید کے باوجود دفاع
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
برطانیہ میں قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادی، خصوصاً کزن میرج، ایک بار پھر عوامی و سیاسی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے حالیہ دنوں میں اس موضوع پر جاری کی گئی رپورٹ کا دفاع کیا ہے جس میں کزن میرج کے ممکنہ “فوائد” بھی بیان کیے گئے تھے۔ اس مؤقف پر کئی مہم چلانے والوں اور سیاستدانوں نے شدید تنقید کی ہے۔ این ایچ ایس انگلینڈ کے جینومکس ایجوکیشن پروگرام کی ایک حالیہ اشاعت میں کہا گیا کہ کزن میرج پر پابندی لگانے کے حق اور مخالفت دونوں پہلو موجود ہیں۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ اس طرح کے رشتوں میں پیدائشی نقائص کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن اس خطرے کا موازنہ تاخیر سے ماں بننے یا حمل کے دوران سگریٹ نوشی و شراب نوشی جیسے عوامل سے کیا گیا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ کزن شادیوں کے ذریعے خاندانوں کو مضبوط سپورٹ سسٹم اور معاشی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ کی این ایچ ایس ٹرسٹ کی ایک دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ کزن میرج کی وجہ سے مقامی سطح پر تقریباً 30 فیصد پیدائشی نقائص سامنے آتے ہیں۔ تاہم اس خطرے کا موازنہ ان برطانوی خواتین سے کیا گیا تھا جو 34 برس کی عمر کے بعد پہلی بار ماں بنتی ہیں، اور یہ دونوں فیصلے ثقافتی و سماجی اقدار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی دوران کنزرویٹو رکنِ پارلیمان رچرڈ ہولڈن نے ایک بل ایوانِ زیریں (ہاؤس آف کامنز) میں پیش کیا ہے جس کا مقصد کزن میرج پر پابندی عائد کرنا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ عمل بچوں کی صحت کے لیے خطرناک ہے اور حکومت “نقصان دہ ثقافتی رواجوں” کے آگے جھک رہی ہے۔ ان کے بقول، لیبر حکومت عوامی مطالبات کو نظرانداز کر رہی ہے اور یہ شادی “امیگریشن کا پچھلا دروازہ” بن چکی ہیں۔ سماجی کارکنان اور متاثرہ خاندان بھی اس بحث میں شامل ہیں۔ عائشہ علی خان، جن کے تین بھائی بچپن میں ہی صحت کے مسائل کے باعث چل بسے، نے کہا کہ وہ نہیں چاہتیں دیگر خاندان بھی اسی المیے سے گزریں۔ فریڈم چیریٹی کی سربراہ انیتا پریم نے بھی ان شادیوں کو “بچوں کے تحفظ کے لیے خطرہ” قرار دیا۔ این ایچ ایس انگلینڈ کے ترجمان نے وضاحت کی کہ یہ رپورٹ سرکاری پالیسی نہیں بلکہ محض موجودہ تحقیقی و پالیسی بحث کا خلاصہ ہے۔ ان کے مطابق، عوامی تعلیم اور جینیاتی مشاورت پر زور دینا پابندی سے زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔