امریکی صدر ٹرمپ کا 800 فوجی جرنیلوں سے تاریخی خطاب
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز ایک غیر معمولی اور ہنگامی اجلاس میں تقریباً 800 امریکی جرنیلوں، ایڈمرلز اور سینئر فوجی افسروں سے خطاب کیا، جو دنیا بھر سے مختصر نوٹس پر اکٹھے کیے گئے تھے۔ یہ اجلاس میرین کورپس بیس کوانٹیکو میں منعقد ہوا، جہاں ٹرمپ اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے فوجی قیادت کو “ووک” (جذباتی) ثقافت کے خاتمے، فوجی اصلاحات اور امریکی شہروں کو تربیت کے میدان بنانے جیسے متنازعہ موضوعات پر مخاطب کیا۔ اجلاس کا اعلان گزشتہ ہفتے اچانک کیا گیا تھا، جس نے فوجی حلقوں میں افواہوں کا طوفان برپا کر دیا۔ کئی افسران نے اسے “غیر معمولی” قرار دیا، کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں سینئر افسران (جنرل بریگیڈیئر اور اس سے اعلیٰ) کا ایک جگہ جمع ہونا نایاب ہے۔ ٹرمپ نے خطاب کی ابتدا مزاحیہ انداز میں کی، کہتے ہوئے کہ “میں نے کبھی اتنی خاموش جگہ نہیں دیکھی”، لیکن جلد ہی ان کا لہجہ سنجیدہ اور تنبیہی ہو گیا۔ ٹرمپ نے امریکی شہروں میں “سول ڈسٹربنسز” (شہری بے چینی) کو “اندرونی جنگ” قرار دیا اور کہا کہ فوج کو انہیں قابو کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے شہروں کو فوجی “تربیت کے میدان” بنانے کا اعلان کیا، جو انسانی حقوق کی تنظیموں نے “جمہوریت پر حملہ” قرار دیا ہے۔
وزیر دفاع ہیگسیتھ نے فوج کو “ووک ڈیپارٹمنٹ” (جذباتی محکمہ) کہہ کر تنقید کی اور اعلان کیا کہ جسمانی فٹنس، وزن اور “ٹاکسک لیڈرشپ” کی نئی معیارات نافذ کیے جائیں گے۔ انہوں نے “موٹے جرنیلوں” پر طنز کیا اور کہا کہ “فٹنس، قابلیت اور کردار” کی حفاظت ضروری ہے، نہ کہ “احساسات کی”۔ ہیگسیتھ نے محکمہ دفاع کا نام “محکمہ جنگ” رکھنے کا اعلان کیا، کہتے ہوئے کہ “ڈیفنس کا دور ختم ہو گیا”۔ ٹرمپ نے اس کی حمایت کی اور کہا کہ یہ “امریکی آزادی کی حفاظت” کے لیے ضروری ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو “مزید بہتر” بنا رہا ہے، لیکن امید ہے کہ ان کا استعمال نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے غزہ امن منصوبے (20 نکاتی) کا بھی ذکر کیا، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان “تاریخی تصفیہ” لا سکتا ہے۔ خطاب میں ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن پر تنقید کی، ان کے “آٹو پین” استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور فوج کو “لٹھی اور تیز” بنانے کا وعدہ کیا۔
یہ خطاب سیاسی طور پر متنازعہ رہا۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ڈک ڈربن نے اسے “جمہوریت پر خطرناک حملہ” قرار دیا، جبکہ اے سی ایل یو نے فوج کے شہری استعمال کو “کریک ڈاؤن” کہا۔ دوسری طرف، ٹرمپ کے حامیوں نے اسے “فوجی روح کی بیداری” قرار دیا۔ اجلاس کے دوران سکیورٹی انتہائی سخت تھی، اور فوجی افسران خاموشی سے سنیں رہے۔ نائب صدر جے ڈی وینس نے میڈیا کی تنقید کو “بڑی کہانی” بنانے کا الزام لگایا۔ یہ خطاب امریکی فوج کی پالیسیوں میں بڑے تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر جب حکومت شٹ ڈاؤن کے قریب ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں فوج کو مزید “سیاسی” بنانے کی کوشش ہے۔