آزاد کشمیر میں ریاستی جبر عروج پر: عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج میں تشدد

Kashmir Kashmir

آزاد کشمیر میں ریاستی جبر عروج پر: عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج میں تشدد

مظفرآباد(صداۓ روس)
آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری احتجاج تیسرے دن بھی جاری ہے، جہاں ریاستی جبر اور پولیس کی سختی کی وجہ سے صورتحال تشدد آمیز ہو گئی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) کی 38 نکاتی دستاویز مطالبات پر حکومت سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہڑتال اور وہیلی جیم سٹرائیک کا اعلان کیا گیا تھا، جو اب خونریزی کا باعث بن چکا ہے۔ راولا کوٹ کے ڈھیر کوٹ علاقے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 3 پولیس اہلکار شہید اور 9 دیگر زخمی ہو گئے، جبکہ کل 172 افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں 12 کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے پرامن مظاہرین پر فائرنگ کروائی، جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کمیٹی کے “شرپسند عناصر” نے حملہ کیا، اسلحہ چھینا، وردیاں پھاڑیں اور ایمبولینس تک کو نقصان پہنچایا۔ مظفرآباد اور میرپور سمیت مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز معطل کر دی گئیں، جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے “آواز دبانے کی کوشش” قرار دیا ہے۔ کمیٹی نے مطالبات میں حکمرانوں کی مراعات ختم کرنے، 12 نشستیں مہاجرین کے لیے مختص کرنے کا خاتمہ، اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس پر رائلٹی شامل کی ہے، جو اقوام متحدہ کے کشمیر حل کے تناظر میں خودمختاری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر کشمیر امور امیر مقام اور اے جے کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے، اور 90 فیصد مطالبات تسلیم کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن کمیٹی کا کہنا ہے کہ باقی مطالبات آئینی ترمیم طلب ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے لاک ڈاؤن واپس لینے کی اپیل کی ہے، جبکہ فوج اور رینجرز کی تعیناتی نے خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ ایکس پر ہیش ٹیگز سے ہزاروں پوسٹس وائرل ہو رہی ہیں، جہاں مظاہرین ریاستی جبر کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج 2024 کی مہنگائی مخالف تحریک کا تسلسل ہے، جو اب سیاسی اصلاحات کی طرف بڑھ چکا ہے، اور اگر مذاکرات ناکام رہے تو مزید تشدد کا خطرہ ہے۔ کمیٹی نے 15 اکتوبر کو نئی تحریک کا اعلان کیا ہے، جبکہ شہری خواتین اور نوجوانوں نے مزاحمت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی جا رہی ہے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے۔

Advertisement