غزہ امداد کے لیے روانہ ہونے والے فلوٹیلا پراسرائیلی فوج کا حملہ: تمام کارکن گرفتار
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
غزہ کی ناکہ بندی توڑنے اور انسانی امداد پہنچانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی بحریہ نے شدید حملہ کیا، جس میں تمام 40 سے زائد کشتیوں کو قبضے میں لے لیا گیا اور سوئیڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت 200 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی غزہ کے ساحل سے تقریباً 70 ناٹیکل میل دور بین الاقوامی پانیوں میں کی گئی، جہاں اسرائیلی فورسز نے کشتیوں کا مواصلاتی نظام اور براہ راست ویڈیو نشریات کو جام کر دیا۔ فلوٹیلا کے منتظمین نے اسے “انسان دوست کارکنوں پر غیر قانونی حملہ” قرار دیا ہے، جبکہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ رضاکار “امداد کے بجائے اشتعال انگیزی” کے لیے آئے تھے۔
اس فلوٹیلا میں درجنوں ممالک سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد افراد سوار تھے، جن کا مقصد جنگ زدہ غزہ میں خوراک، پانی، ادویات اور دیگر امدادی سامان پہنچانا تھا۔ فلوٹیلا نے اگست 2025 میں اسپین اور اٹلی کے بندرگاہوں سے روانگی اختیار کی تھی اور یونان و تیونس سے گزرتے ہوئے مشرقی بحیرہ روم میں داخل ہوا تھا۔ اسرائیلی فورسز نے بدھ کی شام مقامی وقت کے مطابق ابتدائی طور پر فلوٹیلا کی لیڈنگ کشتی “الما” پر قبضہ کیا، جہاں گریٹا تھنبرگ اور برازیلین کارکن تھائیگو ایویلا سمیت دیگر سوار تھے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں تھنبرگ کو فوجیوں سے گھری ہوئی دکھایا گیا، اور دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار افراد “محفوظ اور صحت مند” ہیں اور انہیں اسرائیلی بندرگاہ اشدود منتقل کیا جا رہا ہے۔
فلوٹیلا کے عرب صحافی حسن مسعود نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ایک کشتی “مکینو غزہ” غزہ کی سمندری حدود میں داخل ہو چکی ہے، جبکہ 39 دیگر کشتیوں کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ فلوٹیلا کی تنظیموں کے مطابق، اسرائیلی بحریہ نے ڈرون حملوں، کیمیائی سپرے (جیسے “سکونک واٹر”) اور فوجی بوٹس کے ذریعے گھیراؤ کیا، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی تنظیم “پاک فلسطین فورم” نے دعویٰ کیا ہے کہ فلوٹیلا پر سوار سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی گرفتار ہو گئے ہیں، تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ فلوٹیلا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ کارروائی “جنگ کا جرائم” ہے اور تمام کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزارت دفاع نے کارروائی کی توجہہ دی کہ فلوٹیلا حماس کی “پی آر اسٹنٹ” ہے اور غزہ کی ناکہ بندی (جو 2007 سے نافذ ہے) کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ انہوں نے پیشکش کی کہ امداد کو اسرائیلی چینلز کے ذریعے غزہ پہنچایا جا سکتا ہے، لیکن فلوٹیلا نے اسے مسترد کر دیا۔ یہ واقعہ 2010 کی مشہور فلوٹیلا کارروائی کی یاد دلاتا ہے، جہاں اسرائیلی کمانڈوز نے ایک ترکش کشتی پر قبضے کے دوران 9 کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
عالمی برادری نے اسرائیلی کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر فرانسیسکا البانیز اور کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے فلوٹیلا کو محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کیا، جبکہ کولمبیا نے اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا اور تجارتی معاہدہ منسوخ کر دیا۔ اٹلی، ترکی، اسپین اور ملائیشیا جیسی حکومتوں نے بھی شدید ردعمل دیا، اور اٹلی کی سب سے بڑی لیبر یونین نے جمعہ کو قومی ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ یورپی ممالک کے اراکین پارلیمنٹ اور دیگر کارکن بھی گرفتار ہیں، جنہیں 72 گھنٹوں میں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
اس واقعے کے بعد روم، نیپولز، استنبول، ایتھنز، برلن، برسلز، تونس اور بیونس آئرس سمیت عالمی شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، جہاں شرکاء نے اسرائیلی اقدامات اور غزہ کی جاری جارحیت کی مذمت کی۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں، جہاں صارفین نے تھنبرگ کی گرفتاری کو “انسانیت کی بے حسی” قرار دیا ہے۔ ایک پوسٹ میں لکھا گیا: “گریٹا تھنبرگ اور دیگر کارکنوں کی گرفتاری انسانی ضمیر کا امتحان ہے، فوری رہائی ضروری ہے!”
یہ کارروائی غزہ کی دو سالہ جنگ کے تناظر میں سامنے آئی ہے، جہاں 11 ہفتوں کی مکمل ناکہ بندی سے 21 لاکھ فلسطینی بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں، اور ہلاکتوں کی تعداد 65 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ فلوٹیلا کی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ “ناخلف نہ ہوں گی” اور نئی کوششیں کریں گی، جبکہ عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔