کیا دنیا پھر سے جنگ کی دہلیز پر ہے؟
اشتیاق ہمدانی
دنیا ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ جیسے ہر بار ہوتا ہے، بڑے طاقتور ممالک اپنے دفاعی ہتھیار بڑھانے اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچچ نے ایک ایسا بیان دیا ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا:
“سب جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کون کس طرف ہے۔ ہم جنگوں اور تنازعات سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اب کوئی سننے کو تیار نہیں۔ سب واقعی اور سنجیدگی سے جنگوں کی تیاری کر رہے ہیں۔”
یہ الفاظ نہ صرف خبردار کرتے ہیں بلکہ ایک عالمی سچائی کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی امن کا ماحول کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ، مشرق وسطیٰ کی بے چینی، چین اور تائیوان کا تنازع، نیٹو اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج — یہ سب اس بات کے منہ بولتے ثبوت ہیں کہ عالمی طاقتیں دوبارہ صف بندی میں مصروف ہیں۔
صدر ووچچ کے بیان میں چھپی ہوئی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اب جنگ کی تیاری محض ایک ملک یا دو کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک عالمی رجحان بن چکی ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ ہم اس صورتحال کو کیسے سمجھیں اور اس کا حل کیا نکالیں؟
عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ کی کردار پذیری پر سوالات اٹھ چکے ہیں۔ سفارتکاری کا طریقہ کار کئی بار ناکام ہو چکا ہے۔ طاقتور ممالک اپنی اپنی من مانی کر رہے ہیں، اور عام انسان کی زندگیوں پر اس کے گہرے اثرات پڑ رہے ہیں۔
سربیا کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال بھی اس صورتحال کی پیچیدگی کو بڑھاتی ہے۔ وہ مشرق اور مغرب کے بیچ ایک نازک توازن قائم کرنے کی کوشش میں ہے، لیکن دنیا کے بڑے کھلاڑیوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اس توازن کو بگاڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔
اب وقت ہے کہ عالمی رہنما اپنی عجلت ترک کریں، امن کی کوششوں کو ترجیح دیں، اور جنگ کے بجائے گفت و شنید کے ذریعے مسائل حل کرنے کا راستہ اپنائیں۔ ورنہ صدر ووچچ کے الفاظ سچ ثابت ہوں گے کہ “اب کوئی سننے کو تیار نہیں” — اور پھر جنگ کی آگ میں سب جلے بغیر نہیں رہیں گے